میر شکیل الرحمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں یکم جون تک توسیع

—فوٹو فائل

لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید یکم جون تک توسیع کردی۔

میر شکیل الرحمان پرائیویٹ پراپرٹی کی خریداری کے 34 سال پرانے معاملے میں 60 دن سے نیب کی حراست میں ہیں۔ 

میر شکیل الرحمان کی جوڈیشل ریمانڈ کی مدت ختم ہونے پر آج احتساب عدالت کے جج جوادالحسن نے کیس کی سماعت کی جس میں میر شکیل الرحمان کو پیش نہیں کیا گیا۔

میر شکیل الرحمان کے  وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے ان کی غیرقانونی گرفتاری کے خلاف دلائل پیش کیے۔

سماعت کے دوران میر شکیل الرحمان کو پیش نہ کیے جانے پر جج جواد الحسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ  میر شکیل الرحمان کہاں ہیں؟ دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ جیل میں ہیں، کہاں لکھا ہے کہ اسپتال منتقل کیا گیا؟ یا تو جیسے کام چل رہا تھا چلنے دیتے، عدالت کے سامنے نوٹیفکیشن پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

جج جواد الحسن نے مزید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ گھر کی عدالتیں بنا رکھی ہیں، حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ کیسز کی کارروائی کی معطلی کا حکم دے، کیا ہائیکورٹ کا آرڈر موجود ہے کہ کیسز کی کارروائی معطل رہے گی ،عدالت کوکوئی اعتراض نہیں ملزموں کو پیش کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

معزز جج نے استفسار کیا کہ حکومت پنجاب کو کیا اختیار ہے کہ عدالتوں کو کہے کہ کیسز کی کارروائی معطل رہے گی؟ قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے کہ حکومت عدالتوں پر اپنی مرضی کرے، کیا آئی جی جیل خانہ جات کو نہ بلا لیں کہ کس قانون کے تحت قیدیوں کو پیش نہ کرنے کے ایس او پیز بنائے؟

 جج جواد الحسن نے ریمارکس میں کہا کہ پولیس نے ہمارے معاشرے کا بیڑا غرق کر دیا ہے، آئی جی طے کرے گا کہ کس وکیل کو اپنے کلائنٹ سے جیل میں ملاقات کی اجازت ہو گی اور کس کو نہیں؟ حکومت نے زیر سماعت مقدمات کی کارروائی معطل رکھنے کا کیسے ایس او پی بنایا؟ پھر تو عدالتوں کو تالا لگا دیتے ہیں تاکہ عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

معزز جج کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ملزموں کو پیش نہیں کیا جا رہا اور ایس او پیز میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس سے لگتا ہےکہ عدالتوں کو ڈکٹیشن دی جا رہی ہے۔

فاضل جج نے استفسار کیا کہ وزارت قانون اورآئین پاکستان کہاں ہے؟ ایسی پالیسیوں نے سسٹم کا بیڑا غرق کردیا، جو آرڈر پیش کیا گیا ہے یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے، کیا کورونا ایس او پیز کے تحت کسی ملزم کو وکیل سے ملنے سے روکا جا سکتا ہے؟ 

اس دوران جیل سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملزم کو پیش نہیں کیا گیا۔

بعدازاں عدالت نے میر شکیل الرحمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں یکم جون تک توسیع کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا۔

میر شکیل الرحمان کے کیس کا پس منظر

میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :