17 مئی ، 2020
لگتا ہے کہ وزیراعظم کا کورونا وائرس کے خلاف سلوگن ’’ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘ عملی طور پر فیل اور دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ برسر زمیں حقائق یہ ہیں حکمران طبقات سے لیکر تمام بااثر شعبوں تک سب کورونا وائرس کے بجائے باہمی محاذ آرائی میں سرگرم ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ عمل قوم کی تقسیم کا سبب بن رہا ہے اور ایسی صورت میں کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ سلوگن کا پہلا حصہ یعنی ’’ڈرنا نہیں‘‘ بھی برعکس مستعمل ہے۔ ملک بھر کے عوام کو کورونا کے ساتھ روزی روٹی کا خوف بھی لاحق ہو چکا ہے۔
گویا حکمران قیادت کا طرزِ عمل ہی عوام کے خوف یعنی ’ڈر‘ میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ دنیا کے 122ممالک اس وبا سے نبرد آزما ہیں اور اب وہ فعال زندگی کی طرف پیشرفت جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہم ہر حوالے سے ترقیٔ معکوس کا شکار ہیں۔
اب جس ملک کی قیادت کا گزر بسر ہی محاذ آرائی اور عمل کے بجائے بیانات پر ہو، اُس ملک کے بدقسمت عوام ایسے ہی مخمصے سے دوچار ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں کہا ’’ہم سندھ میں اپنا لوہا منوائیں گے، پیپلز پارٹی تیاری کر لے‘‘ اس کے جواب میں جناب بلاول بھٹو کا کہنا تھا ’’شاہ محمود مجبور نہ کریں کہ ہم بتا دیں کس نے انہیں وزیراعظم بننے کا خواب دکھایا‘‘۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں بیانات کا معروضی صورتحال سے تعلق کیا ہے اور یہ کہ اس جیسے حکمرانوں کے یومیہ بنیاد پر سینکڑوں بیانات سے کورونا کے ہردو متاثرین یعنی مریضوں اور روزی روٹی سے محروم عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ سب جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو جس بات کے بتانے کی دھمکی دے رہے ہیں وہ بتا نہیں سکتے۔
جو مجبوریاں شاہ محمود قریشی کو درپیش ہیں وہی پیپلز پارٹی سمیت نون لیگ کو بھی دامن گیر ہیں۔ رضا ربانی کے بجائے صادق سنجرانی کا انتخاب اور پھر عدم اعتماد تحریک کی ناکامی محض ایک مثال ہے۔
کہنا یہ ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ آپ کورونا کو ایک وبا قراردے رہے ہیں اور عملی طور پر آپ اس سے بے نیاز اور دیگر مشاغل میں مصروف ہیں تو پھر قوم درست طور پر اس واہمہ کا شکار ہو گی کہ آیا حکمران جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے بھی یا نہیں؟ یوں حکمران جسے جنگ قرار دے رہے ہیں اس میں عوام کیونکر اور کس طرح اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ ہوسکیں گے۔ اس قصے کا اجمال یہ ہے کہ ابتدا ہی غلط تھی۔
دنیا بھر میں اس وبا کی آمد پر کسی ملک نے بھی اپنے ملک کے کسی زبان، مذہب یا عقیدے سے متعلقین کو یہ الزام نہیں دیا کہ اس کے پھیلنے کا سبب فلاں طبقہ ہے بلکہ سب متحد و یکسو ہوکر اس وبا کیخلاف برسر پیکار ہوئے۔ ہمارے ہاں ابتدا ہی الزامات پر مبنی لن ترانیوں سے کی گئی۔
حکمران طبقات کی تاریخ ہی یہ ہے کہ ایسے مواقع کو اپنے ذاتی، گروہی وسیاسی مفاد کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔ مذہبی و صحافتی قوتوں سمیت فیصلوں پر اثرانداز ہونے والی ہر قوت سے ان کا خاص تعلق ہوتا ہے۔ ان کا اصل فن افراتفری یا ایسے ایشوز میں عوام کو الجھانا ہوتا ہے جس میں دلچسپی کا سامان موجود ہو۔ اس سے ان کا مقصد اپنے عزائم کی تکمیل یا خورد برد سے عوام کی توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔
اب جہاں چینی، شوگر، آٹا، پاور اسکینڈل سے لیکر 100ارب روپے ٹیکس واپسی کے معاملے اور مہنگائی وغیرہ جیسے ایشوز عوام کی نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں وہاں کورونا کے نام پر قومی خزانے کے بے دریغ استحصال کی جانب بھی عوام کی توجہ نہیں۔
یہ اس ملک کی کہانی ہے‘ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جس کے دیہات کی 80فیصد آبادی غریب ہے۔ لاریب کورونا کیخلاف جنگ ناگزیز ہے لیکن کیا یہ جنگ ایسے رویوں، حکمران طبقات کے موقع پرست طرزِ عمل اور ایسی بیورو کریسی کی موجودگی میں جیتی جا سکتی ہے جس نے بینظیرانکم سپورٹ پرگرام کو بھی معاف نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ چاروں صوبوں اور وفاق کے گریڈ 17سے گریڈ 21کے 2ہزار 543افسران اپنی بیویوں، رشتہ داروں و دیگر افراد کے نام پر غریبوں کا پیسہ ہضم کرتے رہے، ان میں گریڈ 21کے تین افسران بھی شامل تھے، معروضی صورتحال میں کیا اتنا بڑا غریب کش ایشو دب کر نہیں رہ گیا؟
اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس ملک کے سرکاری کارندے اس طرح ہوسِ زر میں مبتلا ہوں، اُس ملک کے بے کسوں کی حالت موجودہ استبدادی نظام کے ہوتے ہوئے کیسے بدل سکتی ہے؟
حیف صد حیف! لاک ڈائون کے بعد بھوک ناقابل برداشت بنتی جا رہی ہے، گزشتہ دنوں ایک شخص نے خود کشی کر لی، اہلیہ کا کہنا تھا کہ ہم 7دن سے بھوکے تھے، جب بچے پانی سے روزہ افطار کر رہے تھے تو یہ صورتحال باپ سے برداشت نہ ہو سکی اور اُس نے خودکشی کرلی۔
کیا گزشتہ 7دہائیوں سے اس ملک پر حکمرانی کرنے والی سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ یہ جواب دے سکتی ہے کہ وسائل سے مالا مال اس ملک کے عوام کو خودکشی پرمجبور کرنے کا ذمہ دارکون ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔