ماڈل کالونی کے نوجوانوں کو سلام

فوٹو فائل—

عید ویسے ہی بہت اداس اور کٹھن گھڑیوں میں آرہی تھی۔ ہم ہی کیا پوری دنیا دگرگوں ہے۔ 2020کا آغاز ہی قہر سامانیوں سے ہوا ہے۔ کمبوڈیا سے کینیڈا تک کون سا ملک ہے جہاں کورونا نے یلغار نہیں کی ہے۔ 

رمضان المبارک کی آمد کا رحمتوں کا برکتوں کا اور رونقوں کا سال بھر سے انتظار ہوتا ہے، روزے رکھیں گے، اعتکاف ہوگا، رحمتوں کا عشرہ مغفرت کا پھر جہنم سے نجات کا اور اس کے بعد عیدالفطر کا تہوار۔ 

عیدی، گلی کوچوں میں نئے نئے کپڑے پہنے بچے بچیاں چھوٹے چھوٹے پرس اٹھائے عیدی اکٹھی کرتے۔ صدیوں کی روایتیں اپنا رنگ جماتی ہوئی۔ دور دراز ملکوں سے بیٹے بیٹیاں والدین کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے آرہے ہیں۔ اب کے رمضان اس عالمگیر وبا کورونا کی وجہ سے بہت ہی سنسان۔ ویران۔ عبادات میں خلل۔ پھر بھی سب کی اللہ تعالیٰ سے دعائیں گڑ گڑاکر کہ ہمیں اس آزمائش میں بھی سرخرو کر۔

اللہ اللہ کرکے ملک میں بھی پروازوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اپنے پیاروں سے دور دوسرے شہروں میں پھنسے ہوئے عید کے لیے گھر پہنچنے کے لیے پروازوں پر نشستیں محفوظ کرا رہے ہیں۔ جمعۃ الوداع کی سہ پہر گرمی بھی بہت سخت ہے۔ مائیں اپنے بیٹوں کو۔ بہنیں اپنے بھائیوں کولینے کے لیے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی پہنچی ہوئی ہیں۔ پرواز 8303تھوڑی دیر میں اترنے والی ہے۔ نگاہیں انفارمیشن بورڈ پر لگی ہوئی ہیں۔ دھماکے کی آواز آتی ہے۔ انفارمیشن بورڈ پر کچھ نہیں پتا چل رہا۔ لوگ پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ائیرپورٹ کی دیوار کے اس طرف ماڈل کالونی کے گھروں میں سے دھویں کے بادل ابھر رہے ہیں۔ یا اللہ خیر! کچھ ہو گیا ہےکوئی بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔

ماڈل کالونی کے در و دیوار خاص طور پر چھتوں بالکونیوں۔ منڈیروں کو تو عادت ہوگئی ہے۔ جہازوں کی گھن گرج سننے کی۔ جہازوں کی اُڑان۔ اور اُتران دیکھنے کی۔ رات ہو یا دن۔ جس روز یہ آوازیں نہ آئیں یہاں کے مکینوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔ 

کئی ہفتے پروازیں بند رہیں تو ماڈل کالونی۔ ملیر کینٹ کے رہائشیوں کے معمولات ویران ہوگئے تھے۔جمعۃ الوداع کی نماز کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس لیے سب ہی بڑے اہتمام سے مسجدوں میں گئے ہیں۔ ماسک پہنے ہوئے۔ سماجی فاصلوں کی پابندیاں پوری کرتے ہوئے۔ گرمی نے برا حال کر دیا ہے۔ بڑے کہہ رہے ہیں اب کے عیدی نہیں ملے گی۔ حالات اچھے نہیں ہیں۔ بچے مایوس ہورہے ہیں۔ اب کے نئے کپڑے بھی نہیں بن سکے۔ اب یہ خبر کہ عیدی نہیں ملے گی۔

ایک دھماکے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ بہت نزدیک سے۔ چھت گر رہی ہے۔ دیواریں لرز رہی ہیں۔ آگ کی تپش اندر ڈرائنگ روم تک آرہی ہے۔ گلی میں شور مچ رہا ہے۔ نوجوان باہر نکل آئے ہیں۔ عورتیں چھتوں پر چڑھ کر دیکھ رہی ہیں کیا ہوا ہے۔

آفریں ہے کراچی پر شہر قائد کی ایئرپورٹ سے ملحقہ بستیوں کے نوجوانوں کو سلام۔ آگ اور دھوئیں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے انہیں فکر ہے کہ پی آئی اے کے اس جہاز میں ہم وطن مسافروں کو دیکھیں۔ جس جس کی جان بچ سکتی ہے، کوشش کریں۔ جن مکانوں پر جہاز گرا ہے۔ ان کے مکینوں کو بچائیں۔ ایدھی کی ایمبولینسیں بھی سائرن بجاتی آرہی ہیں۔ چھیپا کی دس بیس گاڑیاں بھی نظر آرہی ہے اور بہت سی ایمبولینسیں، پولیس کے سپاہی، رینجرز، پھر ملیر کینٹ سے فوجی بھی۔ 

ایک مسافر زندہ نظر آرہے ہیں۔ انہیں نوجوان اٹھا کر ایمبولینس تک لے جارہے ہیں۔ یہ ظفر مسعود ہیں۔ اداکار منور سعید کے صاحبزادے۔ سید محمد تقی کے نواسے۔ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ آس پاس کے اسپتال بھی خبردار ہیں۔ ڈاکٹر کمپوڈر۔ نرسیں مستعد۔ سب کی کوشش کہ جتنی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ سول ایوی ایشن کی گاڑیاں۔ پی آئی اے کا عملہ سب تیزی سے پہنچ رہے ہیں۔ جناح اسپتال۔ سول اسپتال۔ آغا خان۔ لیاقت نیشنل۔ دارُالصحت سب زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے الرٹ۔

ہم اپنی قوم سے بہت شکوے گلے کرتے ہیں۔ پولیس فوج۔ رینجرز۔ پی آئی اے۔ سول ایوی ایشن حکومت سندھ۔ وفاقی حکومت سب پر سخت تنقید۔ الزامات۔ لیکن اس قیامت کی گھڑی میں تو سب متحرک ہیں۔ اپنے اپنے قواعد کے مطابق حرکت میں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ بھی اسپتال میں پہنچ رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات۔ وزیر تعلیم بھی مریضوں کی عیادت کرتے۔ میڈیا کے سوالات کے جوابات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میڈیا کے کیمرہ مین۔ رپورٹر سب اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ ان سب کے روزے ہوں گے۔ دوروز بعد ان کو بھی عید منانی ہے۔ ان کے گھر والے۔ بچے بچیاں سبھی عید کے لیے ان سے گفتگو کے منتظر ہیں۔

جن کے پیارے اس پرواز سے آرہے تھے عید پر اکٹھے ہونا تھا۔ ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ ان پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ ان کی عید تو ماتم میں بدل رہی ہے۔ پہلے سے کورونا نے قہر مچا رکھا ہے۔ اب یہ جہاز کا حادثہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے۔ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ ہماری کوتاہیوں سے در گزر کرے۔ماڈل کالونی۔ اور آس پاس کی بستیوں کے نوجوانوں نے رضا کارانہ طور پر جس بیداری اور درد مندی کا مظاہرہ کیا ہے مجھے تو اس پر فخر ہے۔ اور پی آئی اے کے سربراہ ارشد ملک بھی بروقت میڈیا کی عدالت میں موجود ہیں۔ بہت وضاحت سے اس وقت کی صورتحال بتا رہے ہیں۔

ہلالِ عید ایسی سوگوار فضا میں کیا پیغام دے رہا ہے۔ مایوس نہ ہوں اللہ کی رحمت سے۔ اللہ تعالیٰ ان والدین کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے اور جو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اللہ ان کے درجات بلند کرے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔