28 مئی ، 2020
کراچی کے ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن کے علاقے میں جمعۃ الودع کے روز سب کچھ پرسکون تھا، مرد مساجد سے نماز جمعہ ادا کر کے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے اور خواتین گھروں میں عبادت اور دیگر کاموں میں مصروف تھیں لیکن اچانک ایک زور دار دھماکے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
22 مئی 2020 کو پاکستانی وقت کے مطابق دن سوا 2 بجے پیش آنے والا حادثہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے 99 مسافروں کے اہل خانہ سمیت جناح گارڈن کے کئی گھروں کے رہائشیوں کے لیے بھی ناقابل فراموش ہے۔
پی آئی اے کاطیارہ جن گھروں پر گرا ان میں سے ایک گھر شازان معظم کا بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ 2 بج کر 20 منٹ کے قریب وہ نماز پڑھ کر اپنے گھر میں داخل ہوئے تو ان کی والدہ اپنے کمرے میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی لیکن اچانک انہیں جہاز کے انجنوں کی گونج معمول سے زیادہ زیادہ اور قریب تر محسوس ہوئی اور پھر چند لمحوں بعد ان کا گھر ایک دھماکے سے لرز اٹھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہیں مزید دھماکے سنائی دیے اور وہ منظر ایسا تھا کہ وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔
شازان معظم کے مطابق "اچانک ہی ہمارا گھر دھوئیں اور گرد سے بھر گیا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں اپنی اور والدہ کی جان بچانے کے لیے تیزی سے چھت کی طرف بھاگا تو چھت پر آگ لگی تھی اور اردگرد ہر طرف چیخ و پکار تھی، میں نے گھر کے عقب سے اپنی والدہ کو ایک منزلہ اونچی عمارت پر چڑھایا جس کے بعد میں خود بھی پچھلے گھر کی چھت پر چڑھ گیا، ہر طرف آگ، دھواں اور لوگوں کی چیخوں کے علاوہ کچھ نہیں سنائی دے رہا تھا۔"
شازان معظم نے بتایا کہ وہ واپس اپنے گھر کی چھت پر اترے جہاں ملبے کے نیچے 2 جھلسی ہوئی لاشوں کو انہوں نے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن آگ اور تپش کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور پاؤں میں چھالے بھی پڑ گئے۔
شازان کا کہنا تھا کہ اس حادثے میں ان کے گھر کو شدید نقصان پہنچا اور ایک گاڑی اور موٹر سائیکل مکمل طور پر جل گئی مگر وہ خوش ہیں کہ اللہ نے انہیں اور ان کی والدہ کو محفوظ رکھا۔
اس کے حوالے سے شازان معظم کا کہنا تھا کہ دنیا میں اور بھی جگہ رہائشی علاقوں سے قریب ائیر پورٹس موجود ہیں لیکن اس طرح کا واقعہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اس درد ناک حادثے نے ان کے دماغوں کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
شازان کا کہنا تھا کہ حادثے کی وجہ سے یہاں کے گھروں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے اور صرف ان کا گھر ہی 80 فیصد تک متاثر ہوا ہے اس میں موجود سامان، اے سی، پنکھے، سولر پینل، گاڑی اور موٹرسائیکل وغیرہ سب مکمل طور پر جل گئے ہیں یا ناقابل استعمال ہو چکے ہیں جب کہ گھر کی بنیادیں تک ہل گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور اب تک ان کے گھر کے سامنے سے ملبہ تک نہیں ہٹا جب کہ بجلی اور گیس بھی اب تک بحال نہیں کی گئی، حکومت کی اس سُست رفتاری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی گھر کی مرمت کا کام ایک سال بعد ہی شروع کیا جائے گا۔
22 مئی کو پی آئی اے کی لاہور سے کراچی آنے والی پرواز پی کے 8303 ائیرپورٹ پر لینڈنگ سے چند سیکنڈ پہلے آبادی پر گر کر تباہ ہوگئی تھی۔ اس طیارے میں عملے کے 8 اراکین سمیت 99 افراد سوار تھے جن میں سے معجزاتی طور پر 2 افراد بچ بھی گئے تھے۔
طیارے حادثے کے حوالے سے تاحال تحقیقات کی جا رہی ہیں اور سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔