Time 02 جون ، 2020
بلاگ

شیخ رشید کو باری دیں

ماضی میں نواز شریف کو لائے، زرداری کو لائے، شاہد خاقان آئے، اب عمران کو لائے، کیا شیخ رشید کا حق نہیں بنتا؟ لہٰذا اب شیخ رشید کو باری دیں—فوٹو فائل

یہ بھی کیا، وہ بھی کیا، کونسا تجربہ نہیں کیا؟ کبھی پاپولر کو لائے، کبھی آمر آئے، سویلین آئے، جنرل آئے، ماہر لائے، باہر سے منگوائے، سوچ کے لائے، کئی خود آ گئے۔ کوئی بھی حکمران امیدوں پر پورا نہیں اُتر سکا۔ گہرے غور و فکر، سوچ و بچار اور استفراق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مطالبہ کردوں شیخ رشید کو باری دیں۔

میں نے اکیلے بیٹھ کر گھنٹوں سوچا، مراقبے میں گیا، خاموشی کا چلہ کاٹا، ہر بار قرعہ فال شیخ رشید کے حق میں نکلا۔ اُن جیسا کون ہے؟ اُن کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے، نظر لوگوں کے چہرے پڑھ رہی ہوتی ہے، وہ دلوں کی دھڑکن تک کو سن لیتے ہیں۔ اُن کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے، ماضی کے تمام مسائل میں وہ حق پر تھے اور اب بھی ہر مسئلے پر اُن کی رائے صائب ہوتی ہے۔

 طاقتور اُن کے دوست ہیں، عقل اُن کی باندی ہے، زبان سے پھول جھڑتے ہیں، چھڑی گھمائیں تو مشکل ترین عقدے کا حل نکال سکتے ہیں، ہوانا سگار پیتے پیتے وہ معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ چٹکی بجا کر بتا سکتے ہیں، ماضی میں نواز شریف کو لائے، زرداری کو لائے، شاہد خاقان آئے، اب عمران کو لائے، کیا شیخ رشید کا حق نہیں بنتا؟ لہٰذا اب شیخ رشید کو باری دیں۔

پاکستان کی 72سالہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، آج تک جتنے منتخب یا غیرمنتخب حکمران آئے ہیں سبھی شادی شدہ تھے بلکہ کئی تو دو یا تین بار اس بندھن میں بندھ چکے تھے، اِن حکمرانوں میں سے اکثر ناکام ہوئے، وجہ یہ تھی کہ شادی کے جھمیلے ہی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ شادی شدہ حکمرانی پر توجہ ہی نہیں دے پاتے۔ 

اس بار حکمرانی کی ذمہ داری کنوارے کو دیں، شیخ رشید منے پرونے کنوارے ہیں، انٹرنیٹ پر موجود غیرمصدقہ معلومات کے مطابق پاکستان کے 63فیصد لوگ شادی شدہ ہیں جبکہ شادی کی عمر گزر جانے کے باوجود شادی نہ ہونے یا شادی نہ کرنے والے لوگوں کی تعداد 37فیصد ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ 37فیصد کنواروں کی نمائندگی کے لیے حکمرانی کا بارِ امانت شیخ رشید کے حوالے کیا جائے۔

میرے حمایت یافتہ شیخ رشید سیاسی بلوغت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ 3،4حکومتوں میں وہ آٹھ نو بار وفاقی وزیر بن چکے ہیں، ساری دنیا گھوم چکے ہیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں، ن لیگ، ق لیگ اور اب تحریک انصاف کے اتحادی رہ چکے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف، جنرل مشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان کو اندر باہر سے جاننے کا دعویٰ رکھتے ہیں، اب تو وہ حساس موضوعات کو چھونے کے بھی قابل ہو گئے ہیں۔ 

جنرل باجوہ کو جنرل ضیاء الحق جیسا قرار دینے کا حوصلہ وہی کر سکتے تھے، اب تو انہوں نے ایٹمی دھماکہ کروانے کا کریڈٹ بھی نواز شریف سے چھین کر اپنے سینے پر تمغے کی صورت میں سجا لیا ہے۔ میرے ممدوح عوامی آدمی ہیں، اسی لئے اُن کی ذاتی پارٹی کا نام عوامی مسلم لیگ ہے۔ اُنہیں کروڑوں عام عوام کی حمایت حاصل ہے، وہ ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں تو ریٹنگ ہوا میں چھلانگیں لگا تی ہے، لوگ اُن کی پیش گوئیوں اور تبصروں پر دل و جان سے فدا ہیں۔ 

وہ گلی محلے اور تھڑے سے اٹھنے والے سیاست دان ہیں اسی لئے مہم جو ہیں، ناکوں اور رکاوٹوں کے باوجود راولپنڈی کے چوک میں پہنچ گئے، گاڑی کے اوپر بیٹھ کر سگار سلگایا اور بزدلوں کو ہوا میں اُڑا دیا۔ اُن کی مہم جوئی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، اُنہیں شاید احساس بھی ہے کہ وہ سیاست کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں، اسی لئے وہ مقتدر حلقوں سے خبریں نکال کر منادی کر ڈالتے ہیں۔ 

کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ کرکٹ کے چوکے چھکوں کے قائل نہیں بلکہ گلی ڈنڈا کے ٹُل مارتے ہیں، اندیشہ یہ ہے کہ اُن کا ٹُل کسی ایسے گھونسلے میں نہ جا لگے جہاں کی چیلیں انہیں اپنی ٹھونگوں کا شکار بنالیں۔ دعا گو ہوں کہ ہمارے محبوب اور مستقبل کے حکمران کو اللہ حاسدوں اور ظالموں سے محفوظ و مامون رکھے۔

میری اپنے ہیرو شیخ رشید سے 1994سے یاداللہ ہے، اُس وقت کشمیر کمیٹی کا ہم سفر ہونے کی وجہ سے اُن کے خیالاتِ عالیہ سننے کا اتفاق ہوتا رہا۔ گزشتہ 26سال سے اُن کے سیاسی شب وروز کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اُن کے ماضی، حال اور مستقبل کا بھی مستقل قاری رہا۔ اُن کی رومانویت پسندی، حسن پرستی اور آزاد خیالی بھی دیکھی، کشمیر کاز کے لئے مجاہدوں کو تیار کرتے بھی دیکھا، بھارتی بیانیے کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اُترتے بھی دیکھا اور سیاسی پلیٹ فارم تبدیل کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ 

ان کا اچھا وقت بھی دیکھا، جیل میں گزارے دنوں کے بارے میں بھی پڑھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں آتے بھی دیکھیں، پہلے وہ سیاست کے طالب علم تھے، اسے سیکھنے اور بسر کرنے میں غرق رہتے تھے، اسی میں روز وشب گزارتے تھے، اب وہ سیاست کے عالم اور امام بن چکے ہیں۔ اب کوئی اُن کے سامنے دُم بھی نہیں مار سکتا، انہیں ہر بات کا علم ہے، اُن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔ 

ایشو مقامی ہو یا بین الاقوامی، معاشی ہو یا سیاسی اور علمی ہو یا غیرعلمی، میرے ہیرو کی پٹاری میں سب کچھ موجود ہے۔ وہ سیاست کے عروج پر ہیں، کچھ تھک بھی چکے ہیں، عظمت کا اعتراف نہ ہونے پر اُن میں کچھ تلخی بھی آتی جا رہی ہے، ضروری ہے کہ اُنکی شخصیت، تجربے اور علم کے مطابق اُنہیں عہدہ دیا جائے، کیا ہی اچھا ہو کہ اب عمران انہیں باری دے دیں۔

شیخ صاحب جو سوچیں وہ عظیم ہوتا ہے، جو کہیں وہ سچ ہوتا ہے اور وہ جو کریں کارنامہ ہوتا ہے۔ واقعات اُن کی سوچ کے مطابق نہ چلیں تو قصور واقعات کا ہے وہ ہمیشہ سچ کہتے ہیں۔ اگر ان کی پیش گوئی سچ نہ نکلے تو قصور حالات کا ہوتا ہے، جو بدل گئے ہوتے ہیں۔ بڑی عید پر بڑی قربانی نہ ہو سکی تھی کیونکہ اس میں تاخیر ہو گئی تھی ڈالر 100کا اسلئے ہو گیا تھا کہ اسحاق ڈار نے ہیرا پھیری سے کام لیا تھا وگرنہ سچے شیخ رشید ہی تھے۔ 

شیخ صاحب جو کرتے ہیں وہ کارنامہ ہی ٹھہرتا ہے، وہ نئی ٹرین چلائیں تو کارنامہ وہ کوئی ٹرین بند کریں تو کارنامہ، حادثہ نہ ہو تو کارنامہ اور اگر خدانخواستہ حادثہ ہو جائے (جو اکثر ہو جاتے ہیں) تو اس کے ذمہ دار ڈرائیور اور گارڈ ٹھہرتے ہیں۔

آئیے میرے ساتھ مل کر ذرا چشم تصور میں ملاحظہ کریں کہ وزیراعظم شیخ رشید شیروانی اور جناح کیپ پہنے جب لمبے لمبے ڈگ بھرتے نظر آئیں گے تو مرد و خواتین اُن کی شان دیکھ کر واہ واہ کر اٹھیں گے، وہ زندگی بھر ریڑھیوں اور کھوکھوں سے ناشتہ کرتے رہے ہیں، بطور وزیراعظم بھی وہ لال حویلی سے نکلتے ہوئے کہیں سے چنے کھائیں گے اور کہیں سے نہاری، کیمرے لگے ہونگے چنے کھاتے کھاتے وہ بھارت کو پیغام دیں گے کہ وہ اسے ناکوں چنے چبوا دینگے۔ اور پھر کلچہ کھاتے کھاتے وہ امریکا سے مخاطب ہونگے کہ تمہاری ڈبل روٹی کو میں کلچہ بنا دونگا، لسی پیتے ہوئے وہ اس میں چینی ڈالیں گے اور چین کو محبت کا سندیسہ بھجوائیں گے۔ فلمی اداکارائیں چاہے لالی وڈ کی ہونگی یا بالی وڈ کی، وہ مایوسیوں کے اندھیرے سے نکل کر امید کے چراغ جلائیں گی۔ 

کورونا وائرس کو میرا ممدوح ایسا دفن کرے گا کہ اس کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا۔ آخر میں میری ہمدردانہ درخواست ہے کہ آپ ہر کسی کو آزما چکے شادی شدہ، رنڈوے اور طلاق یافتہ سب اقتدار سنبھال چکے، ایک بار کنوارے کو باری دے کر دیکھیں شاید واقعی تبدیلی آ جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔