آمریت سے محبت کرو

فوٹو: فائل

جمہوریت کیخلاف ایک وعدہ معاف گواہ کا بیان۔

آمریت اچھی ہوتی ہے، یہ جب بھی آتی ہے جمہوریت کو ساتھ لاتی ہے، ہر بار صاف ستھرا یا ڈرائی کلین کرکے، یہ مجھے اسی لیے یہ پسند ہے  جب بھی یہ آئی میں نے مٹھائی تقسیم کی، جمہوریت نے مجھے کیا دیا، صاحب، سوائے جمہوریت کے خلاف بات کرنے کے تویہ آزادی مجھے آمریت میں بھی حاصل تھی، آمریت میں چاہوں تو جس سیاست دان کے خلاف مرضی بولوں، جمہوریت میں بھی آپ کسی سیاست دان کے خلاف نہیں بول سکتے ہیں۔

شوگر کمیشن پر چاہوں توجتنا جی چاہے بولوں یا لکھوں، پانامہ پرجو دل کرے کہتا پھروں۔ یہ آزادی مجھے آمریت میں بھی حاصل تھی، آمریت سے میری محبت اٹل ہے،میں بڑا جمہوریت پسند بنتا تھا ۔ آزادی اظہار کی بات کرتا تھا ۔ جمہوریت آئی تو پتا چلا اتنا بھی نہیں لکھ سکتا جتنا آمریت میں لکھ سکتا تھا ۔ ذرا کسی ایسے میگا اسکینڈل پر لکھ کر تو دکھالوں جس میں دور سے بھی کسی نامعلوم کی جھلک نظر آئے۔

اب اگر جمہوریت میں جمہور کا یہ حال ہےتو پھر میں آمریت سے کیوں نہ محبت کروں۔کونسی ایسی جمہوریت ہے جو آمریت نہیں لائی۔ بنیادی جمہوریت، صدارتی جمہوریت۔ غیر سیاسی جمہوریت اور پچھلے چند برسوں سے سکینڈ جمہوریت اب اور کیا چاہیے اور کیا کرے آمریت جمہوریت کے لیے؟

اب تو جمہوریت میں کاروبار کی بھی اجازت ہے، اب توجمہوری یا نام نہاد جمہوری حکمرانوں کوبھی آمرانہ انداز میں حکومت چلانے کی عادت پڑگئی ہے۔بس اقتدار کا لالچ دوفوراً وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔

آمریت جب بھی آتی ہے صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے جمہوریت کی صفائی، آئین کی صفائی، پریس کی صفائی ، عدلیہ کی صفائی ،سیاست کی صفائی۔کبھی یہ سب بہت گندے ہوجاتے ہیں تو نیا برانڈ آ جاتا ہے۔ نئے گروپ، نئے لیڈر باقی کچھ کو ڈائی کلین کردیا جاتا ہے۔ رہ گی بات ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کی تو ماشااللہ چندایک گمراہوںکو چھوڑ کر سب ایک دعوت پر آجاتے ہیں۔

کہاتھا ناں پاکستان سیاست دانوں نے نہیں بنایا ’معجزہ‘ تھا ۔ میں تو سمجھا تھا یہ سیاست دانوں نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں طویل جدوجہد کے بعد پاکستان بنایا۔مجھے تو آمریت پسند ہے اور میں نے پاکستان بننے کے10سال بعد ہی جمہوریت کا بستر گول کروادیا اور1958میں پہلی بار مجھے مٹھائی تقسیم کرنے کاموقع ملا۔ وہ دن ہےاور آج کا دن یا تو یہ خود آتی ہے یا لائی جاتی ہے۔کبھی کچھ بھٹکے ہوئے سیاست دان آجاتے ہیں اور کبھی آمریت پربھی جمہوریت کا بخار سوار ہوجاتا ہے۔

فاطمہ جناح آئیں اور سمجھیں کہ آمریت کے زیر سایہ ہونے والے صدارتی الیکشن میں آمر کو ہرا دیں گی لیکن لگ پتا گیا توسیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اب ذرا سوچیں ایک آمرگیا تو اقتدار دوسرے کو سونپ گیا میں نے اس پر بھی مٹھائی تقسیم کی ۔پھر ایک اور مختصر ساجمہوری دور آیا اور مجھے چار سال مٹھائی کاانتظار رہا مگر اس جمہوریت نواز کو بھی سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا لقب لینا پڑا کیونکہ کوئی آئین موجود نہیں تھا ۔

اس پر جب عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنےاور عوام کو زبان دینے کا بھوت سوار ہوا اور وہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے چل پڑا تو بڑے مائی باپ کا حکم آگیا کہ اسے فارغ کردو۔ اس سے حماقت یہ ہوئی کہ اس نے ایک سال پہلے ہی الیکشن کا اعلان کردیا اور پھر وہی ہوا جس کا انتظار تھا۔

جمہوریت گئی اور آمریت آگئی ۔ وہ موجودہ رہنمائوں جیسا نہیں تھا۔ لہٰذا اس کا توقصہ تمام ہونا ہی تھا۔ پھر آمریت نے رج کر11سال حکومت کی ۔

آخری آمریت دیکھے کچھ عرصہ ہوگیا وہ روشن خیال آمریت تھی ۔ نظریہ ضرورت، آخر ضرورت کے تحت آتاہے۔ اب اس میں عدلیہ کا کیا قصور۔پھر ہماری عدلیہ بھی اپنے آپ کو آزاد کرنے میں لگ گئی۔

میڈیا بھی اپنے آپ کو آزاد تصور کرنے لگا اس کا بھی کچھ بندوبست کرنا پڑا۔پھر کچھ ایسا ہوا جس سے معاملہ بگڑ گیا۔ وہ آئی اور اس نے آمریت کو للکاراتو راستے سے ہٹا دی گئی ۔ اب میری آمریت کو کسی سے خطرہ نہیں۔ وہ جمہوری شکل میں ہی کیوں نہ رہے سب اپنے سے لگتے ہیں۔

دیکھیں جمہوریت کی گاڑی آمریت کی پٹری پر کتنے اچھے انداز میں چل رہی ہے۔اب جو اچھا برا ہے وہ جمہوریت جانے اور جمہوریت نواز۔کراچی میں جیتنے والی جماعت چار سیٹوں پر خوش اور قومی جماعت سندھ تک محدود ، رہی بات اپنے ہی بنائے ہوئے کچھ لوگوں کی جو ہماری آمریت ہی کی پیداوار ہیں تو ان کو سمجھا لیں گے۔

ان میں اپنے بہت ہیں۔کپتان ٹھیک ہے، ٹھیک جارہا ہے۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔ اب کسی آمر اور آمریت کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی مٹھائی کھا کھاکرشوگر کا خطرہ ہے۔ اس لیے شوگر مافیا پر حملہ ہوا ہے۔ وہ بھی اب کہا ںجائیں گے ۔ اب جب بھی گالیاں پڑیں گی جمہوریت کو ہی پڑیں گی ، سیاست دان ہی برا ہے۔ بھلا ہو کورونا، کا سب کوہی گھر کا کردیا ہے۔

آخر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک یہ جمہوریت ہے میں اس کے خلاف دیے گئے بیان سے نہیں پھروں گا قائم رہوں گا کہ آمریت سے محبت کرو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔