17 جون ، 2020
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ لندن میں جائیدادوں سے متعلق سپریم کورٹ کو وضاحت دینے کے لیے تیار ہو گئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا 10 رکنی فل کورٹ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کر رہا ہے۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کر لے، ایف بی آر کے ساتھ درخواست گزار جج اور اہلیہ تعاون کریں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے عدالت میں جواب داخل کرایا ہے، وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں اور پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا جب کہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جج نے نہیں کہا یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں، جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جج نے جواب میں وزیراعظم کے نام لندن کی پراپرٹیز بتائی ہیں۔
کیس سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیی بھی عدالت میں پہنچے اور فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت مانگی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیدادوں کی وضاحت دینا چاہتی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب آپ آئے ہیں تشریف رکھیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہے، جس پر جسٹس قاضی فائز نے جواب دیا کہ مجھے میری اہلیہ نے ماسک ہمیشہ پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے، تاہم انہوں نے چہرے سے ماسک اتارتے ہوئے کہا کہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کررہا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیدادوں کی وضاحت دینا چاہتی ہیں، جس پر ججز مشاورت کےلیے اٹھ کر اندر چلے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پر آ کر زیر التواء مقدمے پر بات کی، کونسل میں ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کرا دیا ہے، حکومتی وکیل نے کہا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہیں جس سے 5 یا 6 ملین پاؤنڈ آتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں، آپ کے وکیل موثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میں جذباتی نہیں ہوں، سابق اٹارنی جنرل نے کہا ساتھی ججز نے درخواست تیار کرنے میں مدد کی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں التجا کرتا ہوں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے توہین عدالت کی کاروائی کی ہے۔
میں آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں، وہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں، اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے، اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے، اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر موقف دینے کا موقع دے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اپ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ جج صاحب سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے، اگر مناسب جواب دیتے ہیں تو معاملہ ختم ہوجائے گا، میں جج صاحب اور ان کی اہلیہ کا بڑ احترام کرتا ہوں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے کبھی معزز جج کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ جواب دیتی ہیں تو سارا عمل شفاف ہوجائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب کے بیان پر غور کیا ہے، جج صاحب نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا، اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا، ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کر کے مؤقف دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ وکیل نہیں ہیں، اہلیہ کہتی ہیں اکاؤنٹ بتانے پرحکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے، اہلیہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اہلیہ کا مؤقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ کو ریفرنس کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے، میری اہلیہ کو عدالت کے سامنے مؤقف دینے کی اجازت ہونی چاہیے، میں اپنی اہلیہ کا وکیل نہیں ان کا پیغام لیکر آیا ہوں، میں یہاں جج نہیں درخواست گزار ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کی پیش کش پر مناسب حکم جاری کریں گے، اہلیہ کا پیغام ہم نے سن لیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری اہلیہ کی استدعا کو تبدیل نہ کریں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کی اہلیہ کی زبانی مؤقف دینے کی پیش کش پر غور کریں گے،
درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ کو کسی وکیل کی معاونت نہیں ہوگی۔
جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے ہاتھوں قیدی نہیں بن سکتی: جسٹس عمر عطا بندیال
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عوام میں سے کوئی بھی شخص جوڈیشل کونسل میں رائے کے بغیر ریفرنس بھیج سکتا ہے، صدر مملکت کو ریفرنس کونسل کو بھیجنے سے پہلے اپنی رائے کا تعین کرنا ہو گا، کونسل کو ریفرنس بھیجنے سے قبل صدر مملکت کو رائے بنانی ہو گی کہ ان کی نظر میں مس کنڈکٹ ہوا ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ صدر کے سامنے رائے سے قبل مواد کیا تھا جب کہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ کا آئین میں تعین نہیں ہے، صدر مملکت کہہ دے کہ میری نظر میں جج کا مس کنڈکٹ ہے تو یہ دلیل بڑی خطرناک ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ درخواست گزارکا کہنا ہے کہ ریفرنس بنانے میں بدنیتی ہے، وکیل درخواست گزار کہتے ہیں کہ بدنیتی کا جائزہ کونسل نہیں لے سکتی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار نے موقع گنوا دیا ہے، شوکاز نوٹس سے پہلے کارروائی کو چیلنج کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئین صدارتی ریفرنس اورعمومی ریفرنس میں امتیاز کرتا ہے، کیا کونسل کہہ سکتی ہےکہ وہ صدرمملکت کی بات نہیں مانتی، کیا کونسل صدارتی ریفرنس کو بغیرانکوائری ختم کر سکتی ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدر مملکت کے ہاتھوں جوڈیشل کونسل قیدی نہیں بن سکتی، کونسل آئینی باڈی ہے کہہ سکتی ہے کہ ریفرنس بے بنیاد ہے، کونسل صدر مملکت سے جج کے خلاف کارروائی کے لیے مزیدشواہد مانگ سکتی ہے۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ عدالت کے سوالات سے میں اپنے خیالوں کی ٹرین مس کرگیا، ایک ہی سوال بار بار پوچھا جاتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معروضات پیش کرنا آپ کا حق ہے،سوال کرنا ہمارا حق ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ خیالات کو دوبار اکٹھا کر کے دلائل دی جب کہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر شفاف بات کر دیں تو سوال پوچهنے کی ضروت نہیں ہو گی، ہم بهی تهک چکے ہیں معاملے کو مکمل کر نا چاہتے ہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میں بھی جسٹس مقبول باقر کی بات کی میں بهی تائید کرتا ہوں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل کے پاس مواد آ جائے تو کسی امتیاز کے بغیر جوڈیشل کارروائی کرنے کی مجاز ہے، جج کے خلاف عام شکایت کا جائزہ کونسل کا ممبر لیتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس جائزے کے لیے سنگل جج کو بهیجا گیا، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ صدارتی ریفرنس جائزے کے لیے کونسل کے ممبر کے پاس نہیں گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ناراض نہ ہوں تو ایک سوال پوچھ سکتا ہوں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ بالکل پوچھیں ناراض ہونے والی بات نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ججز کے خلاف بےوقعت درخواستیں نہ آئیں اس لیے رولز 7، 8،9 بنائے گئے ہیں، جوڈیشل کونسل عدالتی فورم نہیں ہے جو ڈیکلیریشن دے۔
انہوں نے کہا کہ جب کونسل جج کے خلاف سفارشات دے تو سوچ بھی نہیں سکتےکہ حکومت اتفاق نہ کرے، جوڈیشل کونسل کی سفارشات قیمتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کونسل ایسے معاملات میں صدر مملکت کو سنے بغیر کیسےآبزرویشن دے سکتی ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل صدرمملکت کو بھی سمن کر سکتی ہے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا وڈیو لنک پر بیان لیا جائے یا نہیں عدالت اس حوالے سے کل آرڈر کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوانےکی تجویز فاضل جج اور ان کے وکیل نے قبول نہیں کی، کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔