17 جون ، 2020
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کیے گئے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میں آج ایوان میں پی ٹی آئی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایوان میں موجود رہیں گے اور اپنی بات کرتے رہیں گے، ہم نے 2 سال تک اس تحریک انصاف کے ساتھ معاہدے پرعملدرآمد کا انتظار کیا ہے، مزید بھی کرنے کو تیار ہیں لیکن کچھ شروع تو کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی جس کا بھائی لاپتا تھا اس کی بازیابی کےلیے وہ چارسال لڑتی رہی، اس لڑکی نے دو دن پہلے خود کشی کرلی، اس کی ایف آئی آرکس کے خلاف کاٹی جانی چاہیے؟
اختر منگل نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، خدا کے لیے بلوچستان کو ساتھ لےکر چلنا چاہتےہیں تو ان معاہدوں پرعمل کریں۔
'اپوزیشن اور حکومتی بینچز کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ 10 ارب میں ہم بک گئے'
ان کا کہنا تھا کہ ہاتھ ملایا آپ کے ساتھ، گلہ نہیں کر رہے، صدر، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ سمیت ہر موقع پر ووٹ دیا، اپوزیشن اور حکومتی بینچز کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ 10 ارب میں ہم بک گئے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا ایک ایک بال بلوچستان کا قرض دار نکلے گا بلوچستان آپ کا قرض دار نہیں ہوگا۔
بی این پی کے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ دو معاہدے ہوئے، 8 اگست 2018 کو پہلا معاہدہ ہوا، شاہ محمود، جہانگیرترین اور یارمحمد رند نے دستخط کیے، ہم بنی گالہ نہیں گئے بلکہ وہ کوئٹہ آئے تھے۔
'لا پتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرنےکا مطالبہ کیا تھا'
انہوں نے کہا کہ لا پتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرنےکا مطالبہ کیا تھا، ان دونوں معاہدوں میں کوئی بتادےکہ کوئی بھی ایک غیر آئینی مطالبہ ہے؟
اختر مینگل نے کہا کہ کیوں آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ؟ یہ مائنڈ سیٹ ہے جو 1948 سے چلا آ رہا ہے۔
پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سے ہاتھ ملایا ہرموقع پر ساتھ دیا،ووٹ بھی دیا مگر 2 معاہدے کرنے کے باجود ان پر عمل درآمد تو دور کی بات ، سنجیدگی سے غور تک نہیں کیا گیا۔
'افغان امن کانفرنس بلائی گئی، بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی '
سردار اختر مینگل نے کہا کہ افغان امن کانفرنس بلائی گئی، بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی ، سیاسی جماعتیں بوسنیا اور فلسطین کے لیے تو احتجاج کرتی ہیں ، ٹماٹر ، چینی پر بحث تو ہوتی ہے، بلوچستان کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟
سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ آپ کو بلوچستان کا پورا حصہ دینا ہوگا آج نہیں تو کل دینا ہوگا، موجودہ بجٹ میں بلوچستان تو کسی کھاتے میں ہی نہیں ہے، این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کابیان 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اخترمینگل سے رابطہ معاملات حل کر لیے جائیں گے، ذرائع
حکومتی ذرائع نے جیونیوز کوبتایا ہے کہ اتحادیوں میں غلط فہمیاں سیاست کاحصہ ہیں، اختر مینگل سے آئندہ ایک دو روز میں رابطہ کرکےان کے تحفظات دور کر کے معاملات حل کر لیے جائیں گے۔
تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرنے کا فیصلہ ان کی جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا فیصلہ ہے، اب وہ چاہیں بھی تو یہ فیصلہ بدلا نہیں جاسکتا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان مینگل گروپ کے 4 ارکان کی حمایت سے184 ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب ہوئے تھے۔
مینگل گروپ کی علیحدگی کے باوجود تحریک انصاف اور اتحادیوں کی کل تعداد 180 ہے اور حکومت برقرار رکھنے کے لیے 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جو اب بھی برقرار ہے۔ بی این پی مینگل کا سینیٹ میں ایک رکن ہے۔