24 جون ، 2020
پی ٹی آئی سے میرا زیادہ اختلاف جہانگیر ترین اور اُن جیسے لوگوں کو پارٹی میں لانے اور پھر جہانگیر ترین ہی کو طاقتور ترین بنانے پر ہوا۔ یوں اس جماعت کے اندر پچھلے برسوں میں اگر میں نے کسی شخص پر سب سے زیادہ تنقید کی تو وہ جہانگیر ترین ہی تھے تاہم یہ اُن کا کمال ہے کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں انہوں نے مجھ سے تعلق منقطع کیا اور نہ ملتے وقت عزت دینے میں کوئی کمی کی۔ آج اُن سے متعلق کچھ واقعات بےاختیار یاد آرہے ہیں جو نذرِ قارئین ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کوئٹہ میں سی پیک کے حوالے سے کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کئی سیاسی رہنمائوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔
میں بھی اس میں بطور مقرر مدعو تھا لیکن اِن دنوں کابل میں تھا۔ وقت اتنا کم تھا کہ میں اگر اسلام آباد بذریعہ ہوائی جہاز آتا تو کوئٹہ بروقت کانفرنس کے لئے نہیں پہنچ سکتا تھا۔
دوسری طرف عاصم باجوہ بھائی کی تاکید ایسی تھی کہ انکار بھی ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ میں قندھار تک ہوائی جہاز میں اور وہاں سے بذریعہ سڑک براستہ چمن، کوئٹہ پہنچا۔ رات کو عاصم سلیم باجوہ کے عشائیے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جہانگیر ترین اور کئی دیگر سیاسی رہنما بھی شریک تھے۔ میرے قندھار سے بذریعہ سڑک کوئٹہ آنے کے ایڈونچر کا آرمی چیف کو بھی علم ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ صافی! سنا ہے آپ نے بڑی ایڈونچر کی۔
میں نے جواب میں عرض کیا کہ سر! قندھار سے کوئٹہ کے لئے فلائٹ ہے نہیں اور میں کوئی عمران خان نہیں کہ جہانگیر ترین کےا سپیشل جہاز میں آتا۔ اس پر ساتھ کھڑے جہانگیر ترین نے جواب دیا کہ میرا جہاز آپ کے لئے بھی ہر وقت حاضر ہے۔ اس محفل میں آرمی چیف کے بعد سیاسی لوگوں میں زیادہ توجہ کا مرکز جہانگیر ترین تھے۔
میں نے ان سے عرض کیا کہ مستقبل کا حکمران سمجھ کر اس محفل میں لوگ آپ کے آگے پیچھے ہورہے ہیں لیکن اپنا اندازہ تو یہ ہے کہ بیلنس کرنے کے لئے آپ کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے اور آپ کے پیارے لیڈر بھی آن بورڈ نظر آتے ہیں۔ وہ نہیں مان رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ صافی بھائی! آپ خواہ مخواہ خان صاحب کے بارے میں بدگمان ہیں۔
خان صاحب اپنی نااہلی گوارا کرلیں گے لیکن میری نہیں کریں گے۔ بہرحال نااہلی کے بعد جب ہماری ملاقات ہوئی تو کوئٹہ کی محفل کا ذکر آیا۔ کہنے لگے کہ صافی بھائی! آپ کا اندازہ ٹھیک تھا لیکن میں اعتماد میں مارا گیا۔
جہانگیر ترین پر میرے غصے اور زیادہ تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی پارٹی میں موجود ہمارے بہت سارے دوستوں سے ناک رگڑوا دی۔ وزیر مشیر بن کر آج جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو میں نے جہانگیر ترین کے دولت کدے پر تحائف اور سفارشوں کے ساتھ گھنٹوں انتظار کرتے دیکھا ہے۔
سیاسی لوگوں کو تو چھوڑیں موجودہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے بھی عمران خان تک پہنچنے کے لئے ان کا روٹ استعمال کیا تھا۔ جہانگیر ترین نے ہی انہیں خان سے ڈائریکٹ کروا کر پہلے پختونخوا کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور پھر چیف سیکرٹری بنوا دیا۔
جہانگیر ترین اور خان کے ساتھ ڈائریکٹ ہو جانے کے بعد اعظم خان وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور ترین ہی کے گھر پر خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے الٹا خان اور ترین کو ان کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔
اب ترین صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ زلفی بخاری، اسد عمر، خاتونِ اول، علی زیدی اور اعظم خان نے مل کر کیا لیکن نام صرف اعظم خان کا لیتے ہیں۔ لندن جانے سے قبل ان سے ملاقات ہوئی تو اعظم خان کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ شخص میرے ساتھ ایسا کرےگا۔
جہانگیر ترین ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ تھے اور اگر ان کا پیسہ، ذہن اور محنت بروئے کار نہ آتے تو خان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے کہ میری اور خان صاحب کی دوستی کرا دیں۔ آخری کوشش انہوں نے تین ماہ قبل کی۔ مجھے چائے پر گھر بلایا۔ وہاں پہنچا تو وزیرخزانہ حفیظ شیخ بھی موجود تھے۔
گفتگو ترین صاحب نے شروع کی لیکن پھر مسلسل وزیر خزانہ بولتے رہے۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ سلیم آپ اور خان جیسے لوگوں کی دوستی ملک کی ضرورت ہے۔ میں جواباً عرض کرتا رہا کہ میری خان صاحب سے دشمنی ہے اور نہ دوستی۔ وہ اگر انٹرویو دینا چاہیں تو میں ایک صحافی کی حیثیت سے کل ان کی خدمت میں حاضر ہو جائوں گا لیکن دوستی اس لئے نہیں ہو سکتی کہ میری ان کے بارے میں رائے اس سے یکسر الٹ ہے جو آپ جیسے لوگوں کی ہے۔
میں تنقید چھوڑ نہیں سکتا اور وہ تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ حفیظ شیخ صاحب نے بہت تنگ کیا تو میں نے جان چھڑانے کے لئے عرض کیا کہ شیخ صاحب! پہلے تو آپ وزیراعظم اور جہانگیر ترین کی صلح کرا دیں پھر میری صلح کی فکر کریں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ یہ سب آپ میڈیا والوں کی افواہیں ہیں۔
وزیراعظم اور ترین صاحب آج بھی اسی طرح قریب ہیں جیسے پہلے تھے۔ اس دوران جہانگیر ترین نے مداخلت کی اور کہا کہ میری تو خان صاحب سے صلح ہے اور ہم ابھی بھی وزیراعظم ہائوس میں ان سے مل کر آئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بےشک آپ مل کے آئے ہوں لیکن میرے اندازے کے مطابق اب آپ کی ضرورت ختم ہو گئی ہے اور آپ سے جان چھڑانے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
گزشتہ روز جہانگیر ترین سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے ازراہِ مذاق ان سے کہا کہ آپ تو میری صلح کرارہے تھے لیکن خود عمران خان کی حکومت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ ہنس دیے اورچپ رہے کیونکہ اب بھی کچھ لوگوں کا پردہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اصل محسنوں کے بارے میں خان صاحب کی یا پھر خان صاحب کے بارے میں ان کی رائے کب بدلتی ہے کیونکہ جہانگیر ترین کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو پھر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔