29 جون ، 2020
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی کئی اندیشوں اور وسوسوں نے مجھے گھیر لیا۔ جب سے بجٹ اجلاس جاری ہے کئی ارکانِ پارلیمنٹ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور سینیٹر ڈاکٹر جہاں زیب جمال دینی تو مجھے باقاعدہ وارننگ دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ ہاؤس کورونا وائرس کا گڑھ ہے، ہم تو مجبوری میں یہاں آتے ہیں آپ کی تو کوئی مجبوری نہیں۔
بلوچ سینیٹر کی وارننگ کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم قومی اسمبلی کی پریس گیلری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پریس گیلری کی طرف جانے والی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو دائیں جانب سے آواز آئی’’پکڑ لو، پکڑ لو جانے نہ پائے‘‘۔ قومی اسمبلی کے اندر سے دو ماسک پوش تیزی سے میری طرف آئے اور کچھ فاصلے پر بریک لگا کر کہا آج ہمیں آپ کے پندرہ بیس منٹ چاہئیں۔
غور کیا تو یہ تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی تھے جو عام طور پر میڈیا سے دور رہتے ہیں لیکن میرے ساتھ پرانی شناسائی ہے کیونکہ پہلے بھی دو مرتبہ دو مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر ایم این اے بن چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر آپ تکلیف کریں تو قریب ہی پارلیمنٹ لاجز میں چلتے ہیں۔ آپ سے بڑی ضروری بات کرنی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی۔
میں نے اپنا ماسک درست کرتے ہوئے کہا کہ آج تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) ایک ساتھ مجھے ملنا چاہتے ہیں، خیر تو ہے صاحبان؟ مسلم لیگ (ن) والے صاحب گویا ہوئے کہ آپ سے کچھ عرض کرنا تھی آپ ہمارے پرانے مہربان ہیں، ہم آپ کو کم از کم بیس سال سے جانتے ہیں کچھ ذاتی گزارش کرنا ہے۔
اتنی دیر میں اسمبلی کے سیکورٹی اسٹاف کا ایک وائرلیس بردار افسر میرے قریب آیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا سلطان تباہ الدین کشکولی نے تو ہمیں برباد کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا اور پٹرول 25روپے فی لیٹر مہنگا کر دیا ہے۔ سلطان تباہ الدین کشکولی سے اچھے تو وہ چور تھے جنہیں آپ نے بہت کوسا لیکن ابھی تک اُن کی کوئی چوری نہیں پکڑی گئی۔ یہ سُن کر میں نے پوچھا کون سلطان تباہ الدین کشکولی؟ سیکورٹی افسر مسکرایا اور آگے چل دیا۔
تحریک انصاف کے ایم این اے نے اپنا آئی فون نکالا اور اس میں سے ایک میسج نکال کر دکھایا جس میں کہا گیا تھا کہ سلطان تباہ الدین کشکولی سے جان چھڑاؤ یا ہماری جان چھوڑ دو۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ سوشل میڈیا پر وزیراعظم اور کچھ اپوزیشن رہنماؤں سمیت کئی اہم شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا مہم چل رہی ہے اسے سنجیدہ نہ لیں۔ ایم این اے نے قدرے بے تکلفی سے کہا کہ یہ لیکچر بعد میں دینا، پہلے ہمارے ساتھ پارلیمنٹ لاجز چلو۔ میں نے کہا یہیں کیفے ٹیریا یا چیمبر میں بات کر لیتے ہیں۔
جواب آیا نہیں، یہاں ہم سب پر بہت سے لوگوں کی نظر ہے، آپ لاجز چلیں۔ میں نے وعدہ کیا آدھے گھنٹے بعد لاجز آ جاؤں گا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے دفتر میں سینیٹر فاروق نائیک اور سینیٹر محمد علی سیف سے کچھ گپ لگائی اور میں پارلیمنٹ لاجز کی طرف چل پڑا۔
وہاں پہنچا تو خراب لفٹ اور ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں ارکانِ پارلیمنٹ کی رہائش گاہ کی زبوں حالی بیان کر رہی تھیں۔ تیسری منزل پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں پہنچا تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے دونوں ارکان قومی اسمبلی میرا انتظار کر رہے تھے۔
تحریک انصاف والے صاحب کے ایک بھائی نے کہا بُرا نہ منائیں تو آپ تینوں اپنے موبائل فون میرے حوالے کر دیں، میں دوسرے کمرے میں لیجا کر ایک دراز میں بند کر دوں گا۔ یہ سُن کر میری ہنسی چھوٹ گئی لیکن آج کل تو حکومت کے اکثر وزراء بھی یہ احتیاط کرتے ہیں۔
یہ بھائی جان ہمارے فون لے کر باہر نکل گئے تو تحریک انصاف کے ایم این اے نے کہا کہ آپ تو جانتے ہیں ہم نے 2018ء کا الیکشن عمران خان کے نام پر نہیں اپنے زور پر جیتا تھا لیکن جیتنے کے بعد اس اُمید پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے کہ پاکستان بدلنے والا ہے لیکن افسوس پچھلے چند ماہ سے اپنے حلقے میں جاؤ تو پبلک بہت بُرا بھلا کہتی ہے۔ آج پبلک کا مسئلہ کورونا وائرس نہیں مہنگائی ہے۔
اوپر سے ٹڈی دَل نے ہمارا بیڑا غرق کر دیا، پٹرول کی قیمت میں اضافے کو پبلک قبول نہیں کر رہی، کچھ دن پہلے ہم نے اپنی پارٹی کے کچھ ارکان اسمبلی کا ایک گروپ بنایا اور فیصلہ کیا کہ اگر جنوبی پنجاب والوں کے لئے پیکیج کا اعلان نہیں ہوتا تو ہم بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) سے رابطہ کیا تو اُدھر سے جواب آیا کہ ہم بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
میں نے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے کی طرف دیکھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا نواز شریف اور شہباز شریف سے کوئی براہ ِراست رابطہ نہیں، ہم نے یہاں اپنے کچھ بڑوں سے بات کی تو انہوں نے کہا نواز شریف کسی ایسے عمل کی حمایت نہیں کریں گے جس سے سسٹم کو خطرہ ہو لہٰذا بجٹ منظور ہونے دیں بعد میں کچھ کریں گے۔
میں نے پوچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم کچھ ارکان قومی اسمبلی یہ سوچ رہے ہیں کہ راجہ ریاض اور خواجہ شیراز کی طرح حکومت پر کرپشن کے الزامات لگانے کے بجائے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ اگر ہم تحریک انصاف میں بیٹھے رہے تو آئندہ کبھی سیاست نہیں کر سکیں گے۔
میں نے پوچھا کیا کہہ کر استعفیٰ دیں گے؟ جواب آیا ہمارے ساتھ جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا گیا وہ وعدہ پورا نہ ہوا ہمیں کہا گیا 90دن میں کرپشن ختم کریں گے، یہاں راتوں رات پٹرول مہنگا کر کے اربوں کی کرپشن کی جا رہی ہے، ہم کہیں گے آپ ڈاکو ہیں آپ سے اچھے تو وہ چور تھے جن پر کوئی چوری ثابت نہیں لیکن آپ کی ڈکیتی تو سب کو نظر آ رہی ہے۔ آپ سے مشورہ چاہئے کہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں؟
میں مسکرایا اور عرض کیا کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے، میں نے نہیں۔ میں صحافی ہوں جب فیصلہ ہو جائے تو مجھے بتا دیجئے گا، میں آپ کی آواز عوام تک پہنچا دوں گا کہ آپ کے خیال میں اس حکومت سے اچھی تو پچھلی حکومت تھی جسے عمران خان چور کہتے تھے۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ بجٹ منظور ہونے کے بعد عمران خان کا اصل امتحان شروع ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔