30 جون ، 2020
شاید 2سال میں پہلی بار وزیراعظم عمران خان دباؤ کاشکار نظر آئے ہیں۔کرکٹ کے دنوں میں یہ چیز ان کیلئے غیر معمولی ہوتی تھی۔لیکن سیاست ایک مختلف گیند کا کھیل ہے۔
اس وقت پنجاب میں انہیں اپنے اتحادیوں سے زیادہ اپنی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے مسائل کا سامنا ہے،جسے وہ بخوبی محسوس کر رہے ہیں۔قومی اسمبلی اور عشایئے میں کی گئی ان کی یکے بعد دیگرے تقاریر میں انہوں نے پارٹی اور حکومت پر اپنی سخت گرفت کا پیغام دیا اور یہ کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔
لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ وہ ایک آزاد ایم این اے کیساتھ ون ٹو ون ملاقات کر رہے ہیں۔باقی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض ایم این ایز کی کیا بات کی جائے۔جب سے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں اور متحدہ اپوزیشن نے ایک دوسرے کیخلاف مہم شروع کی ہے سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔
دونوں اطراف نے بجٹ پاس اور مسترد کرانے کیلئے اپنے ایم این ایز اور سینیٹرزکو 100فیصد حاضری یقینی بنانے کا کہا۔حالانکہ بجٹ پاس ہونے کے 100فیصد چانس نظر آ رہے تھے۔لیکن اگلے کچھ ہفتے اور مہینے دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے۔جبکہ وزیراعظم اور ان کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کسی بھی دوسرے ملک سے بہتر طریقے سے کورونا بحران پر قابو پایا۔ہر کوئی اس خیال سے متفق نہیں ہے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کی مکمل لاک ڈاؤن معیشت کیلئے تباہ کن ہوتا۔
عید الاضحیٰ کے دنوں میں بھی کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے، جبکہ حیران کن طور پر حکومت نے ٹیسٹنگ کم کر دی ہے جبکہ روزامہ 50 ہزار ٹیسٹ کرنے کادعویٰ کیا گیاتھا۔ تو کھیل کیلئے کیا منصوبہ چل رہا؟ حزب اختلاف کی جماعتوں نے رویہ اچانک کیوں بدلا جبکہ ابتک وہ مائنس ون فارمولا کی مخالفت کرتے آئے تھے۔ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مائنس زرداری اور مائنس شریف فارمولا رد کر چکیں۔
کیا یہ نیا فارمولا اسی ذریعے سے آیا ہے یا یہ خود اپوزیشن سے آیا ہے؟ وزیراعظم کا سب سے بڑا مفاد اپوزیشن کی تقسیم اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران پچھلے سال اپنی سب سے بڑی مایوسی کے بعدکیسے ایک دوسرے کے قریب آئی۔
سوموار اور منگل کو اپوزیشن ارکان کی موجودگی ان کیلئے ایک امتحان ہے۔ذرائع کے مطابق طاقتور اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم سے ناخوش نہیں ہے۔لیکن اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے گورننس کے انداز اور پنجاب میں وزیراعلیٰ بزدار کی وجہ سے پیداہونے والے مسائل سے مطمئن نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے اندر دوسرا مسئلہ غیرمنتخب شدہ خصوصی مشیران اور خصوصی معاونین ہیں جو ایم این ایز کی جگہ لئے جاتے۔
ان کی آوازیں عوامی سطح پر اور ٹی وی پر کابینہ کے غیر منتخب ممبروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے حوالے سے بلند ہو رہی ہیں، خاص کر فواد چودھری کے انٹرویوکے بعد اور بھی بلند ہو گئی ہیں، جس میں انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور تسلیم کیا کہ 2سال میں ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔
ذرائع کےمطابق پی ٹی آئی کے ناراض ایم این ایز کو پہلے ہی پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ بجٹ کے حق میں ووٹ دیں، اپنی مخالفت میں زیادہ آگے نہ بڑھیں۔ بظاہر یہ منصوبہ صرف حکومت اور وزیراعظم کو طرز حکمرانی پر نظر ثانی کیلئے تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں،مستقبل قریب میں تو اس زیادہ بالکل بھی نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ہینڈلرز‘‘ نے انہیں صرف ان کی قریبی دوستوں کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ پاکستان سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا خاص طور پر ایسے وقت میں جب معاشی اشاریئے کافی پریشان کن ہیں اور آئندہ سال تک حالات خراب سے خراب تر ہوسکتے ہیں۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے اور اس میں جہانگیر ترین، مونس الٰہی اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کا نام آنے کے بعد سے پی ٹی آئی کے اندر موجود پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔
جب عمران خان نے اتوار کے روز اپنی تقریر میں مختلف مافیاز کی طرف اشارہ کیا تو وہ اس بات پر مطمئن نہیں کر سکے کہ پیٹرولیم قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے پر واقعتاً کیا ہوا اور جب پیٹرول پمپس سے پیٹرول غائب ہو گیا تو کیوں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذمہ دار کون تھا؟
وزیراعظم اتوار کے روز ان سے ملنے والے اپنے اتحادیوں کو بھی مطمئن نہیں کرسکے اور انہوں نے فیصلے یا ان کی اپنی پارٹی کے ایم این اے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
کچھ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ بحران کے بعد یہ امکان بہت کم ہے کہ شوگر سکینڈل میں مزید کارروائی کی جائے کیونکہ حکومت نے بھی پوسٹ کمیشن کی رپورٹ میں چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے خلاف کارروائی روک رکھی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔