بلاگ
Time 09 جولائی ، 2020

شکریہ ماں!

اگر محترمہ فاطمہ جناح کےساتھ دھاندلی نہ ہوتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا—فوٹو فائل

یہ اپریل 2014ء کی ایک رات کا پچھلا پہر تھا۔آغا خان اسپتال کراچی میں میری آنکھ کھلی تو چھوٹا بھائی مجھ پر جھکا ہوا تھا اور تسلی دے رہا تھا ۔اس نے کہا آپ سوتے میں کسی سے باتیں کر رہے تھے۔ میں اپنے ارد گرد اس بزرگ خاتون کو تلاش کر رہا تھا جو تھوڑی دیر پہلے مجھ سے باتیں کر رہی تھی۔

میں نے ذہن پر زور دیا اور یاد کیا کہ سفید لباس میں ملبوس یہ خاتون کون تھی جو مجھے بار بار کہہ رہی تھی کہ گھبرانا نہیں، یہ تمہارا ملک ہے تمہارے بزرگوں نے اس ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں تم یہ ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جائو گے۔میں نے اپنی آنکھیں دوبارہ بند کیں تو اس بزرگ خاتون کا شفیق چہرہ دوبارہ میرے سامنے آ گیا۔

یہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں اور اب مجھے خواب میں ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو بھی یاد آرہی تھی۔اس خواب کا پس منظر یہ تھا کہ 19اپریل 2014ء کو کراچی میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں مجھے چھ گولیاں لگیں اور دو گولیاں بدستور جسم کے اندر تھیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن بنا دیا تھا لیکن ان کی کابینہ کے ایک وزیراپنی اہلیہ کے ہمراہ اسپتال آئے اور علیحدگی میں مجھے کہا کہ جن لوگوں پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے وہ بے قصور ہیں ۔ڈاکٹر انعام پال نے میرے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگا رکھی تھی لیکن کچھ اہم شخصیات اس پابندی کو توڑ کر میرے سرہانے پہنچ رہی تھیں اور علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کا مشورہ دے رہی تھیں۔

ان دنوں حالت یہ تھی کہ بستر پر پہلو بدلنا تو درکنار ہاتھ پائوں ہلانا بھی مشکل تھا۔ کندھے، پیٹ اور دونوں ٹانگوںمیں لگنے والی گولیوں کے باعث بستر سے اٹھ کر چلنا ناممکن نظر آتا تھا لہٰذا بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دینے والوں کو میرے ڈاکٹر نے سخت لہجے میں کہنا شروع کر دیا کہ آپ مریض کو تنگ مت کریں۔ ایک شام مجھے بتایا گیا کہ کل ایک خصوصی ایئرایمبولینس دبئی سے کراچی آ رہی ہے اور آپ بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔

میں نے اپنے ڈاکٹر سے پوچھا۔وہ اس معاملے سے بے خبر تھے اور مجھے یقین دلا رہے تھے کہ میرا علاج پاکستان میں بالکل ممکن ہے اور میں آہستہ آہستہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائوں گا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے علاج کیلئے نہیں بلکہ اس لئے باہر بھجوانے پر زور تھا تاکہ سپریم کورٹ کا انکوائری کمیشن میری غیر موجودگی کے باعث کام ہی نہ کرسکے۔

ایک دوست نے تو یہ بھی کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کی عیادت تو کر گئے ہیں لیکن اب انہی کی حکومت آپ پر غداری کا مقدمہ بھی بنائے گی اس لئے انکوائری کمیشن سے کوئی امید نہ رکھو ۔

یہ وہ ذہنی دبائو اور کشمکش تھی جس میں محترمہ فاطمہ جناح مجھے خواب میں ملیں اور کہا کہ دیکھو ! ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا مجھے غدار قرار دیا میرے سفید بالوں کا مذاق اڑایا لیکن میں اپنے لوگوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہوں،جو مجھے غدار کہتے تھے انہیں تو ان کی اپنی اولاد بھی بھول چکی ہے ۔مجھے ان کا یہ جملہ بھی یاد آ رہا تھا ...

’’انہیں کہہ دو تم پاکستان میں رہو گے کہیں نہیں جائو گے‘‘

ہو سکتا ہے کہ میرے اندرونی احساسات محترمہ فاطمہ جناح کا روپ دھار کر خواب میں میرے سامنے کھڑے تھے لیکن اس خواب کے بعد میں پُرسکون ہو چکا تھا۔صبح ہوئی تو طبی عملہ میری پٹیاں تبدیل کرنے آیا۔یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا تھا جس میں میری بہت چیخیں نکلتی تھیں لیکن اس صبح میری کوئی چیخ نہیں نکلی۔

ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں، صبح سات بجے کے قریب میرا ایک بھائی باہر کا چکر لگا کر واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اسپتال کے لان میں بہت سے لوگ مصلّے بچھا کر آپ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ایک بزرگ خاتون نے آپ کے لئے امام ضامن بھجوایا ہے ۔

میں نے پوچھا یہ خاتون کون ہے ؟ بھائی نے کہا وہ بلوچستان سے آئی ہے ۔میں نے درخواست کی کہ اس خاتون کو میرے پاس لائو لیکن اس دوران پتا چلا کہ کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات مجھے ملنے آگئے ہیں اور میں اس بزرگ خاتون سے ملاقات نہ کر سکا۔یہ خاتون بھی میری قوم کی ایک ماں تھی جو میرے لئے دعائیں کر رہی تھی اور میں فیصلہ کر چکا تھا کہ میں اپنے ان پیاروں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا۔

2014ء میں مجھے جو زخم لگے ان میں سے ابھی تک درد اٹھتا ہے لیکن محترمہ فاطمہ جناح نے مجھے اس درد کو برداشت کرنا سکھایا اور اس شدید درد سے بچا لیا جو ملک چھوڑنے پر مجھے ہمیشہ تڑپاتا۔ عجیب اتفاق ہے محترمہ فاطمہ جناح کا یوم وفات 9جولائی ہے اور میرے والد پروفیسر وارث میر کا یوم وفات بھی 9جولائی ہے ۔

محترمہ فاطمہ جناح کو ہم مادر ملت کہتے ہیں آغا خان اسپتال کراچی سے فارغ ہونے کے بعد بھی میں مختلف اسپتالوں میں زیر علاج رہا اور انہی دنوں میں نے محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔جیسے جیسے میں یہ کتابیں پڑھتا گیا مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے کی روایت تو بہت پرانی ہے۔

اس ملک کے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بانی پاکستان قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی سگی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔ شاکر حسین شاکر نے اپنی کتاب ’’مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح‘‘ میں ایوب خان کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف شائع کئے جانے والے ان پوسٹرز کا عکس شامل کیا ہے جن میں مادر ملت کو غدار خان عبدالغفار خان کا سرپرست قرار دیا گیا۔غور کیجئے کہ جنوری 1965ء کے صدارتی الیکشن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے لیکر شیخ مجیب الرحمٰن اور خان عبدالغفار خان سے نوابزادہ نصراللہ خان تک سب سمجھدار لوگ مادر ملت کے ساتھ تھے ۔افسوس ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کا ساتھ دیا اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا بھاشانی نے اپنے ایمان کا سودا کر لیا۔

ریاستی طاقت کے بھرپور استعمال اور دھاندلی کی ایک تاریخ سینیٹر انور بیگ کے پاس ہے جو 1965ء میں بی ڈی ممبر تھے اور انہوں نے کراچی میں فاطمہ جناح کو ووٹ ڈال کر ایوب خان کے غیظ وغضب کو دعوت دی ۔یہ کہانی پھر کبھی۔

اگر محترمہ فاطمہ جناح کےساتھ دھاندلی نہ ہوتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ انہیں غدار قرار دینے والے ہی دراصل پاکستان توڑنے کے ذمہ دار ہیں لیکن افسوس کہ سیاسی اختلاف کے باعث غدار قرار دینے کی روایت ابھی قائم ہے ۔ہر سال 9جولائی کو ہمیں مادر ملت سے معافی مانگنی چاہئے اور میں تو معافی کے ساتھ ساتھ ان کا شکرگزار ہوں کیونکہ انہوں نے ایک مشکل وقت میں مجھے پاکستان چھوڑنے سے روکا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔