12 جولائی ، 2020
صحافی کی ایمانداری اور غیر جانبداری کا اندازہ اس کے طرز عمل سے ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس مقام ِبلندپرصحافتی اقدار کی پاسداری خال خال نظر آتی ہے۔ذاتی مفاد پیشہ ورانہ دیانت کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ یہ کام جنرل ضیاالحق کے دور سے شروع ہوا اور نواز شریف نے اسے بام عروج تک پہنچا دیا۔ پھربے نظیر بھٹو بھی اسی روش پرگامزن رہیں پھر پرویز مشرف کے دور میں اس کام کو اور بھی جلا ملی۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں تو معاملات حیرت انگیز حد تک آگے چلے گئے۔ کئی صحافی ارب پتی ہو گئے۔ چیئرمین نیب کی میز پراُن کی فائلیں کافی عرصہ تک پڑی ر ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے تو صحافت کے شعبے کو بھی پاک صاف کرنے کی کوشش کی جس سےمعاملات اور زیادہ بگڑ گئے۔ ایک طرف حکومت صحافیوں کوکو ئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں تو دوسرا یہ کہ صحافی حکو مت کے خلاف بھی کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔
پچھلی دو دہائیوں میں ٹریفک قوانین توڑ کر چالان نہ کروانے کی روش سے لیکر ذاتی کاموں کی لمبی فہرستیں لئے سرکاری افسروں یا وزرا کو اپروچ کرنا معمول رہامگر یہ بھی نہیں کہ میڈیا میں اچھے لوگ موجود نہیں- ایسے بھی ہیں جنہوں نےصحافتی اقدار کو زندہ رکھا۔ ان میں سے کچھ جرمِ بےگناہی کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ جیسے میر شکیل الرحمٰن۔
صحافیانہ طنطنے کا اندازہ کیجئے،اس ہفتے کے آغاز میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے کسی اہم سرکاری مصروفیت کےپیش نظر ایک صحافی کو طے شدہ وقت پر انٹرویو دینےسے معذرت کی اور نئے شیڈول کی درخواست کی۔ یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ اس نے اپنے پروگرام میں 16 منٹ تک صرف وزیر اعلیٰ کو برا بھلا کہا۔ان کی ذات پر جو کیچڑ اچھال سکتا تھا، اچھالا۔
عثمان بزدار بڑے حوصلے والے ہیں۔ اب تک اُن پرجو تنقید کے تیر برسائے گئے اس کی مثال کسی اور دور میں نہیں ملتی مگر انہوں نےہروار پوری جواں مردی کے ساتھ برداشت کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صحافی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ 11 کروڑ عوام کے نمائندے کو یہ کہےکہ تمہارا انتخاب غلط ہے۔ ایک شخص جوووٹ کی طاقت سے اسمبلی میں داخل ہواپھر پنجاب بھر کے نمائندوں کے ووٹ سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔
ایک صحافی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے کہ وہ اس کےشو میں اس کی مرضی کے وقت پر حاضرنہ ہو سکا۔لیکن ایک بات تو صاف ہے، بے بنیاد نفرت یا اختلافات عوامی نمائندے سے اس کی عزت، اس کی کرسی یا اس عہدے کا وقارنہیں چھین سکتے۔
آپ جتنا مرضی شور مچالیں، جتنی مرضی کھوکھلی دلیلیں دے دیں۔جہاں تک سوال ہے انٹرویو سے پہلے موضوعات بتانے کا تو یہ ایک روٹین کا معاملہ ہے، کوئی ٹاک شو ہو یا انٹرویو، میزبان کی پروڈکشن ٹیم یا میزبان مہمان کو خود موضوعات سے آگاہ کرتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ میزبان کسی رہنما کو کال کرے اور کہےرات کو آجانا 8 بجے باقی باتیں شو پر کریں گے۔
جہاں تک بات ہے سوالوں سے ڈر جانے کی تو میں نے وہ تمام سوال پڑھے ہیں جو بقول سینئر صحافی انہوں نے وزیر اعلیٰ سےپوچھنے تھے۔ ان میں کوئی بھی سوال ایسا نہیں تھا جو عوام کے لئے کوئی نیا انکشاف ہو۔ اس سے زیادہ تلخ سوالات کے جوابات تو وہ پریس کانفرنسزمیں صحافیوں کو دیتے رہے ہیں۔
پچھلے دو سالوں میں ہونے والی پریس کانفرنسز ایک طرف اور وزیر اعلیٰ ہائوس میں کورونا پر براہ راسست پریس کانفرنسز ایک طرف۔ ان 3 مہینوں میں وزیر اعلیٰ نے معروف ترین صحافیوں اور رپورٹرز کے جوابات لائیو اور آن لائن دیئے، کورونا سے لیکر سیاسی سب سوالوں کو بہترین انداز میں ہینڈل کیا۔ وہاں کونسے سوالات پہلے بھجوائے گئے تھے؟
قصہ مختصر یہ کہ 48 ڈاکٹرز کے استعفوں کے علاوہ کوئی ایسا سوال نہ تھا جو پہلے وزیر اعلیٰ سے ہوا نہ ہو۔ اس سوال کا جواب بھی ٹی وی پر پہلےسے سارا دن چلتا رہا کہ وہ ایڈہاک پر بھرتی ڈاکٹرز تھے جن کی مدت پوری ہوچکی تھی انہیں معمول کے مطابق استعفیٰ دینا تھا۔پھریہ تمام استعفے 4 سے 5 ماہ کے دورا ن موصول ہوئےتھے۔ سچ کہوں تو بات صرف اتنی ہے کہ وزیر اعلیٰ اس پروگرام میں میزبان کی مرضی کے دن اور وقت پر شریک ہوجاتے تو وہ قابل وزیراعلیٰ ہوتے چونکہ شریک نہیں ہوئے اس لئےنا اہل قرار پائے۔
کچھ لوگ اس وقت پھر کہہ رہے ہیں کہ عثمان بزدار کو تبدیل کیا جارہا ہے مگر وہ لوگ اسی کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چھ ماہ میں عمران خان کی حکومت بھی ختم ہونے والی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے اگر خدانخواستہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے والی ہے تو پھر عثمان بزدار کے جانے کا کیا قصہ، جب عمران خان ہی نہیں ہونگےتو عثمان بزدار کیسے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ میرے نزدیک یہ باتیں خبریں نہیں خواہشیں ہیں، جن کے پوراہونے کا اگلے تین سال تک کوئی امکان نہیں۔
مائنس ون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان کا کوئی ساتھی اسے نہیں چھوڑے گا۔ وہ دوست جوان سے ناراض بھی ہیں وہ بھی انہیں نہیں چھوڑیں گے کیونکہ دوسری طرف ساحل ہے ہی نہیں، جس پر وہ اتر سکیں، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساحلوں پر پانی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اس وقت عمران خان کے سوا کوئی چائس نہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ اگر گئے تو پھر ان کیساتھ سب جائیں گے، نئے انتخابات ہونگے بلکہ وہاں تبدیلیاں آئیں گی جہاں کبھی نہیں آئیں اور یہ سب کچھ اس ملک کو اور زیادہ تباہ کرے ہوگا۔ اگر عمران خان کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہ رہی تو وہ تحریک عدمِ اعتماد جمع ہونے سے پہلے اسمبلیاں توڑ دیں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صدر کے پاس اسمبلیاں توڑنےکی کاغذی کارروائی مکمل ہے اگر کبھی ایسی صورتحال ہوئی تو اس سے پہلے نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے گا۔ یہ خبر بھی ہے کہ اس حوالے سے (ن) لیگ اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔