19 جولائی ، 2020
سابق ٹیسٹ کرکٹر سعید اجمل کا کہنا ہے کہ تبدیلیاں تو ماضی میں بھی بہت ہوتی رہی ہیں لیکن نتائج سامنے نہیں آئے، اب نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے اسٹرکچر میں تبدیلی کی گئی ہے اور نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر بنایا گیا ہے، امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ری اسٹرکچرنگ کرتے ہو ئے شعبہ ڈومیسٹک کرکٹ اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو ایک کر دیا ہے اور اسے ہائی پرفارمنس سینٹر میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں نئی تعیناتیاں کی گئی ہیں وہیں سابق ٹیسٹ کرکٹر ندیم خان ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر مقرر کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے سعید اجمل کا کہنا ہے کہ ماضی میں تبدیلیوں کا تو فائدہ نہیں نظر آیا لیکن ندیم خان، ثقلین مشتاق اور گرانٹ بریڈ برن تجربہ کار ہیں، مجھے امید ہے کہ وہ بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئیں گے۔
سعید اجمل نے کہا کہ کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں جتنے بھی کھلاڑی حصہ لیتے ہیں ان کے کیمپ لگانے چاہیئں، پھر سیزن کے ٹاپ پرفارمرز اور پھر کیمپوں کے ٹاپ پرفارمرز کو الگ کرنا چاہیے اور ان کا 40، 50 کھلاڑیوں کا پول بنانا چاہیے، ساتھ ہی ان کے لیے مراعات بھی زیادہ ہونی چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان میں ڈویژن ون اور ڈویژن ٹو کو متعارف کرانا چاہیے، جو اچھا پرفارم نہ کریں وہ ڈویژن ٹو میں چلے جائیں اور اسی طرح ڈویژن ٹو کے پرفارمرز ڈویژن ون میں آجائیں۔
سعید اجمل کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک کے پرفارمرز کو سلیکشن میں ترجیح دینی چاہیے، ان کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے اور سیکنڈ الیون کے کھلاڑیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، وہاں کے پرفارمرز کو بھی زیر غور لانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیٹگریز کے لحاظ سے ڈومیسٹک کرکٹرز کو سینٹرل کنٹریکٹ دینا اور معاوضے میں اضافہ کرنا خوش آئند ہے، میچ فیس کم ضرور ہوئی ہے لیکن سینٹرل کنٹریکٹ تو ملتا رہے گا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر کا کہنا تھا کہ معاوضوں میں اضافہ اتنا کرنا چاہیے کہ کرکٹرز ادھر ادھر مت جائیں، اس کے علاوہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا نظام بحال ہونا چاہیے، چاہے انہیں ایک ہی فارمیٹ دیں لیکن دیں ضرور، اس سے کرکٹرز اور کوچز کا روزگار بحال ہو گا۔
سعید اجمل نے کہا کہ جو کھلاڑی جس فارمیٹ میں پرفارم کرے اسے پہلے اسی فارمیٹ میں موقع ملنا چاہیے، ٹی ٹونٹی کے پرفارمرز کو ہر فارمیٹ میں کھلانا اچھا نہیں۔