21 جولائی ، 2020
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے پیش کئے گئے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔
سابق ان کاونٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار و دیگر کے خلاف منحرف ہونے والے دونوں گواہ پولیس اہلکار ہیں۔
مقدمہ کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی اور اس موقع پر مرکزی ملزم راؤ نوار سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔
بیانات سے منحرف ہونے والے پولیس اہلکار شہزادہ جہانگیر اور رانا آصف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کے سابقہ بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے، یہ واقعہ ان کے علم میں ہی نہیں ہے، ان سے بیان زبردستی لیا گیا تھا۔
مدعی مقدمہ کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ نے کہا کہ گواہان نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے دباؤ میں آکر بیان تبدیل کیا۔
صلاح الدین پنہور نے کہا کہ گواہوں کے بیانات تبدیل کرانے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔
عدالت نے 28 جولائی تک مزید گواہوں کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
13 جنوری 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
راؤ انوار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں خود کو سرنڈر کردیا تھا جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا جاچکا ہے۔