29 جولائی ، 2020
اگر آزاد میڈیا، آزادی اظہار ، سرکاری رازوں کا افشا اور مختلف النوع نظریات اور خیالات کے اظہار سے کوئی ملک کمزور ہوتا یا ٹوٹتا تو امریکہ دنیا کی سپر پاور نہ رہتا بلکہ کب کا ٹوٹ چکا ہوتا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج سی آئی چیف ریٹائرڈ ہوجاتا ہے اور کل کتاب لکھ بیٹھتا ہے۔ جرنیلوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ابھی نارمل زندگی شروع نہیں کی ہوتی کہ ان کی کتاب سامنے آجاتی ہے ۔
دوسری طرف ہمارے ہاں کتاب لکھنا جرم قرار پاتا ہے جس کا یہ نقصان اپنی جگہ کہ قوم حقائق جاننے سے محروم رہ جاتی ہے لیکن دوسری طرف افغانستان ، کشمیر اور دیگر اہم معاملات پرپاکستان کا بیانیہ بھی سامنے نہیں آتا ۔ امریکہ میں اس روش کی تازہ ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی مشیر جان بولٹن (John Bolton) کی شائع ہونے والی کتاب دی روم وئیر اٹ ہیپنڈ ( The room where it happened) ہے ۔
اس کتاب میں انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ بطور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کام کرتے ہوئے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، پوری وضاحت ، صراحت بلکہ شدت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ چین سے لے کر شمالی کوریا تک اور ایران سے لے کر افغانستان تک ، امریکہ کے حساب سے تمام حساس معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ اور اقدامات کا احاطہ کرتے ہوئے بولٹن نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
جان بولٹن خود سخت گیر نظریات کے حامل ہیں اور ان کی سوچ امریکہ کی ایڈونچرسٹ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے تاہم ان کی کتاب سے ہم جیسے لوگوں کو یہ فائدہ ہوا کہ چین ، شمالی کوریا، ایران، عراق ، یورپ اور افغانستان و پاکستان کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا بخوبی اندازہ ہوا۔
کتاب ہاتھ آتے ہی میں باقی ابواب چھوڑ کر سیدھا اپنی دلچسپی کے باب یعنی افغانستان کی طرف گیا جس میں بولٹن نے ٹرمپ کی افغانستان سے انخلا اور طالبان کے ساتھ ڈیل کی پالیسی کی تشکیل کے مختلف مراحل کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی میٹنگز کی روداد پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی پوری ٹیم (نائب صدر سے لے کر سیکرٹری خارجہ تک اور سیکرٹری دفاع سے لے کر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر تک) ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے ساتھ اس طریقے سے ڈیل کے حق میں نہیں تھی اور تنہا ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے انخلا کی پالیسی ،اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ٹیم سے منوائی ہے۔
ہر میٹنگ سے نکلنے کے بعد ٹیم کے لوگ آپس میں بیٹھ کر اپنے صدر کی پالیسی کو احمقانہ قرار دیتے لیکن بادل نخواستہ اس پر عمل کرتے رہے۔اپنی ٹیم کے ساتھ ٹرمپ کے مباحثے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر طالبان سے ڈیل نہ بھی ہوتی تو وہ اپنی افواج کو نکالنے کے حق میں تھے ۔ وہ میٹس کو بھی ڈانٹتے ہیں اور اپنے جرنیلوں کو بھی اور یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ افغانستان میں اگر طالبان ، القاعدہ یا داعش خطرہ ہیں بھی تو روس جانے اور افغانستان کے پڑوسی جانیں۔ ہم کیوں اپنے فوجی مروائیں اور اربوں ڈالر خرچ کریں۔
دوسری طرف ان کی ٹیم ان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ افغانستان کی جنگ ہماری اپنی سلامتی کی جنگ ہے اور اگر ہم فتح حاصل کئے بغیر یا مناسب شرائط پر مفاہمت کئے بغیر وہاں سے نکلے تو مستقبل میں دوبارہ افغانستان سے امریکہ کے لئے خطرات جنم لے سکتے ہیں ۔
لیکن ظاہر ہے وہ پاکستان نہیں بلکہ امریکہ ہے اور امریکی صدر عارف علوی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، اس لئے سب پر اپنی بات مسلط کرتے اور زلمے خلیل زاد کو کسی بھی صورت طالبان کے ساتھ ڈیل کا راستہ ہموار کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں زلمے خلیل زاد طالبان کو اتنی رعایتیں دینے لگے کہ خود طالبان حیران اور اشرف غنی وغیرہ پریشان ہوئے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل کو کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی افغانستان میں جنگ بند ہوئی ہے اور نہ بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔ اگرچہ حامدکرزئی کی قیادت میں حاجی دین محمد اور اسی نوع کے دیگر افغانوں نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ڈیل کروا کر بڑا کارنامہ سرانجام دیا لیکن بدقسمتی سے ایک طرف اشرف غنی طالبان کی مرضی کے مطابق قیدیوں کا معاملہ پوری طرح حل نہیں کررہے ہیں اور دوسری طرف طالبان جنگ بندی پرآمادہ نہیں ہورہے جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہورہی ہے ۔
زلمے خلیل زاد کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ اب بین الافغان مذاکرات کے لئے ماحول سازگار بنانے میں کماحقہ سنجیدگی نہیں دکھارہی ۔ پاکستان کی فوجی قیادت نے اپنی طرف سے امریکہ اور افغان حکومت کو بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے اور محمد صادق کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان بن جانے کے بعد تو کوششیں اور بھی تیز اور مربوط ہوگئی ہیں لیکن بدقسمتی سے اصل فریقین یعنی افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کے آغازکے لئے فضا سازگار نہیں بنارہے ہیں ۔
اشرف غنی کے مخالفین تو یہ بھی اعتراض کررہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر معاملے کو طول دے کر امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ میرے نزدیک ٹرمپ کی اس سوچ نے افغانستان کے مختلف فریقوں اور پاکستان کو ایک نادر موقع فراہم کردیا ہے ۔
اگر ٹرمپ جیسا پاگل نما شخص امریکہ کا صدر نہ ہوتا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی طالبان کے ساتھ اس قسم کی ڈیل نہ کرتی اوراگر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار جاتے ہیں تو اس پورے عمل کے ریورس ہونے کا قوی خطرہ ہے کیونکہ صرف ڈیموکریٹس نہیں بلکہ خود ٹرمپ انتظامیہ کے سارے لوگ ،اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، پینٹاگون اور سی آئی اے اس طریقے سے ڈیل اور افغانستان سے مکمل انخلا کے حق میں نہیں۔
اس لئے فریقین اور پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جلدازجلد بین الافغان مفاہمت کے عمل کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ اگر انتخابات میں ٹرمپ ہار گئے تو سارا پیس پراسس ریورس ہوگا ،جس کی وجہ سے خاکم بدہن نہ صرف افغانستان جہنم بن جائے گا بلکہ پاکستان کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔