07 اگست ، 2020
کل بودی سرکار سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں ان کا خاص چیلہ چاچا کبوتر بھی تھا، چاچا کبوتر مجھ سے کہنے لگا کہ ’’ آپ نے تو پچھلے سال لکھا تھا کہ کشمیر آزاد ہو جائے گا پھر ایسا کیوں نہ ہو سکا؟‘‘ چاچے کبوتر کی طرح اور لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال ضرور ہوگا، آج اس کی وضاحت کردیتا ہوں۔
پلوامہ واقعہ کے بعد اطلاعات یہ تھیں کہ بھارت حملہ کردے گا مگر پھر پاکستانیوں نے ابھینندن کو ایسی چائے پلائی کہ ہندوستان کی سیاسی و عسکری قیادت سوچ میں پڑ گئی، پاکستانی ہوا بازوں نے انڈین آرمی چیف کو لاک کرکے دکھا دیا تو بھارت گھبرا گیا۔
آپ کویاد ہوگاکہ ان واقعات کے بعد مودی رافیل طیاروں کا ذکر کرتا رہا اور کہتا رہا کہ آج اگر رافیل ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا‘‘ فوجی کمزوریوں کے باعث ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کرنے سے گریز کیا مگر آئین کا آرٹیکل 370 اور35 اے ختم کرکے پورے مقبوضہ کشمیر کو قید خانے میں تبدیل کر دیا۔
مودی نے پہلا آپشن چھوڑ کر دوسرا آپشن استعمال کیا، میں آج بھی اس بات پرقائم ہوں کہ اگر ہندوستان 2019 میں پاکستان پر حملہ کرتا تو کشمیر آزاد ہو جاتا کیونکہ پاک فوج نے خاص منصوبہ بندی کر رکھی تھی، اب جبکہ رافیل بھارت کو مل چکے ہیں تو بھارتی فضائیہ کے سابق سربراہ نے ہندوستان کو مزید ڈرا دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’ پاکستانی فضائیہ رافیل کو مار گرائے گی کیونکہ پاکستانی طیاروں اور ہوا بازاروں کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے‘‘۔ ہندوستان کے پاس بحری صلاحیت بھی کم ہے، فوجی صلاحیت کو گورکھوں اور سکھوں نے گھن لگا رکھا ہے۔
خطے میں ہندوستان تنہائی کا شکار ہے اور اس تنہائی کا ذمہ دار ہندوستانیوں کے نزدیک پاکستان کا ایک ادارہ ہے، ہندوستانی دانشوروں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں چلنے والی آزادی کی تمام تحریکوں کے پیچھے یہی ادارہ ہے، لداخ میں بھارتی فوج کی چینیوں نے پٹائی کی، شکر ہے اس پٹائی کا الزام آئی ایس آئی پر نہیں لگایا ورنہ کوئی رام انہیں یہ بھی بتا سکتا تھا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں نے چینیوں کا روپ دھار رکھا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے اپنے خصوصی خطاب میں یہ نوید سنائی ہے کہ کشمیر کی آزادی بہت قریب ہے، اگرایک سال کا جائزہ لیا جائے تو انداز ہ ہوتا ہے کہ اس ایک برس میں سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے۔
آج مغربی ادارے اور میڈیا بھارت کے خلاف آوازیں بلند کر رہا ہے، خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور اپوزیشن کے لوگ مودی کے خلاف بول رہے ہیں، بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے والے کشمیری سیاستدان کہہ رہے ہیں قائد اعظم درست کہا کرتے تھے۔
پروفیسر اشوک سوین سمیت بھارت کا میڈیا یہ اقرار کر رہا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے گیا، ایک سال پہلے مودی میں پھوک بھری جا رہی تھی آج مودی پر تنقید ہو رہی ہے، چودہ اگست کو حکومت پاکستان سید علی گیلانی کو اعلیٰ ترین اعزاز دے گی، پانچ اگست کو اس کی گونج سنائی دی تھی۔
پانچ اگست کو پوری دنیا میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا، مختلف تقاریب منعقد ہوئیں، جلسے جلوس، میٹنگز اور اجلاس ہوئے، مباحثے اور ٹی وی پروگرام ہوئے، پانچ اگست کی رات جب امریکا میں دن تھا اس وقت ہیوسٹن کے پاکستانی قونصلیٹ اور فرینڈز آف کشمیر نے ایک ویبنار کا اہتمام کیا۔
ویبنار کی خوبی یہ تھی کہ اس میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا، پاکستان اور جرمنی سمیت کئی ملکوں سے مقررین نے آن لائن شرکت کی۔ اس ویبنار کی کامیابی کے لئے غزالہ حسیب خان، ابرار ہاشمی اور عرفان اللہ خان خاصے متحرک رہے۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود احمد خان اور امریکن کانگرس کی رکن شیلا جیکسن کی گفتگو نہایت اہم تھی۔ آخری مقرر اپنے پیارے راوین، دانشور سفارتکار اسد مجید خان تھے۔ جب سے اسد مجید خان امریکا میں پاکستان کے سفیر بنے ہیں انہوں نے سب کو متحرک کر رکھا ہے۔
اس ویبنار سے دیگر مقررین کے علاوہ امریکی کانگرس کی رکن برنی جونسن، ہیوسٹن میں اسٹیٹ کی نمائندہ ٹیری میزا، لارڈ نذیر، سینیٹر شاہین بٹ، عبدالحفیظ خان، کامران رائو، رفعت وانی، عابد ملک اور اپنے مبشر وڑائچ بھی شامل تھے۔ مبشر وڑائچ ڈیلس کی شہری سیاست میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے بڑے سرگرم ہیں۔ تمام مقررین کا خیال تھا کہ کشمیر کی آزادی بہت قریب ہے اور ان شاء اللہ کشمیر بہت جلد آزاد ہو جائے گا۔
اس ویبنار کے انعقاد پر فرینڈز آف کشمیر اور ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہیوسٹن سے یاد آیا کہ ایک زمانے میں دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی یہاں قونصل جنرل ہوا کرتی تھیں۔ اس کورونائی دور میں فی الحال فرحت زاہد کا شعر کہ:
دور سے میں نے ’’زوم‘‘ پہ اس کو دیکھ لیا
آخر کہنا مان لیا تنہائی کا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔