14 ستمبر ، 2020
آپ کو مختاراں مائی تو یاد ہوگی۔ اگر یاد نہیں تو ذہن پر تھوڑا زور دیجئے۔ 2002 میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے ایک گاؤں میر والا میں مختاراں مائی کا گینگ ریپ ہوا تھا۔ یہ ظلم ایک مقامی قبیلے کی پنچایت کے فیصلے کا نتیجہ تھا۔
مختاراں مائی کے ایک بھائی پر شک کیا گیا کہ اُس کے کسی لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ پہلے تو اُس کے بھائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور پھر مختاراں مائی کو پنچایت میں بلاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اُس مظلوم عورت کے کپڑے تار تار کر کے، اُسے برہنہ حالت میں پورے گاؤں میں گھمایا گیا۔ پنچایت والوں کا خیال تھا کہ مختاراں مائی اس ظلم پر خاموش رہے گی لیکن اُس نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں اور پنچایت کے ارکان پر مقدمہ درج کرا دیا۔
میڈیا نے مختاراں مائی کا بھرپور ساتھ دیا جس پر اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف بڑے ناراض ہوئے۔ بہرحال ڈیرہ غازی خان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے مختاراں مائی کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے چھ افراد کو سزائے موت سنا دی۔
انصاف ملنے کے بعد مختاراں مائی کی مشکلات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس مقدمے میں سزا پانے والوں کو علاقے کی اہم سیاسی شخصیات کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ایک طرف ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا معطل کر دی تو دوسری طرف حکومت نے مختاراں مائی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔
ڈکٹیٹر مشرف سے واشنگٹن پوسٹ نے پوچھا کہ آپ کی حکومت گینگ ریپ کی شکار ایک مظلوم عورت کی نقل و حرکت پر پابندیاں کیوں لگا رہی ہے تو موصوف نے جواب دیا کہ یہ تو بزنس بن چکا ہے، جس کسی نے بھی کینیڈا کا ویزا لگوانا ہو یا ڈالر کمانے ہوں، وہ گینگ ریپ کا الزام لگا کر سب کچھ پا لیتا ہے۔
پھر مختاراں مائی سے اُس کا پاسپورٹ بھی چھین لیا گیا۔ جب انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے شور مچایا تو پاسپورٹ واپس کر دیا گیا۔ مختاراں مائی کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر بیرون ملک تو بہت پذیرائی ملی لیکن پاکستان میں اُسے متنازع بنا دیا گیا۔ وہ انصاف کے لئے سپریم کورٹ گئی لیکن پولیس کی طرف سے ٹھوس شواہد فراہم نہ کرنے پر اعلیٰ عدالت نے بھی ملزمان کو بری کر دیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے مختاراں مائی کیوں یاد آ گئی؟ جب لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ نے حال ہی میں گجر پورہ کے قریب موٹروے پر تین بچوں کے سامنے اُن کی ماں کے ساتھ دو افراد کی طرف سے ریپ کی واردات پر کہا کہ اُس نے گھر سے نکلنے سے پہلے پٹرول کیوں چیک نہ کیا اور وہ رات کے وقت جی ٹی روڈ کے بجائے موٹروے سے گوجرانوالہ کو کیوں روانہ ہوئی تو مجھے پرویز مشرف یاد آ گئے۔ ظلم کی شکار خواتین کو ہی ظلم کا ذمہ دار قرار دینے کی روایت اُنہوں نے وطن عزیز میں ڈالی تھی۔
مجھے عمر شیخ کے لہجے میں پرویز مشرف بولتا نظر آیا۔ اگر مشرف قوم کی ایک مظلوم بیٹی کی مذمت کرنے کے بجائے اُس کے ساتھ کھڑا ہو جاتا اور گینگ ریپ کے ملزمان کو عدالتوں سے سزا دلوا دیتا تو 2018 میں قصور کی سات سالہ زینب کے ساتھ شاید زیادتی نہ ہوتی اور نہ اُس معصوم کو قتل کیا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ننھی زینب کے قاتل عمران علی کو پھانسی ہو گئی تھی۔ اُسے عبرت کی مثال تو بنا دیا گیا لیکن اس کے باوجود چھوٹے بچوں سمیت خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات نہ بند ہوئے، نہ کم ہوئے۔
آخر کیوں؟ 12؍ستمبر کی شام وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نئے آئی جی پنجاب انعام غنی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کا آغاز کیا تو مجھے 2018ء میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی پریس کانفرنس یاد آ گئی جب اُنہوں نے ننھی زینب کے قاتل کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ بزدار صاحب نے اپنے نئے آئی جی کے ساتھ بیٹھ کر جو پریس کانفرنس کی اُس میں قاتلوں کی گرفتاری کا نہیں بلکہ اُن کے فرار کا اعلان کیا گیا۔
یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک انوکھی پریس کانفرنس تھی جس میں حکومت نے بڑے فخزیہ انداز میں اپنی ناکامی کا اعلان کیا۔ قاتلوں کی نشاندہی میڈیا کے ذریعہ پہلے سے ہو چکی تھی۔ اُمید ہے کہ پنجاب پولیس اس اندوہناک واقعے کے ملزموں کو گرفتار کر لے گی۔
مجھے یقین ہے کہ ان شقی القلب انسانوں کو سزا بھی ضرور ملے گی لیکن کیا اس سزا کے بعد بچوں اور خواتین کے خلاف اس قسم کے جرائم کم ہو جائیں گے؟ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر افراد کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔
موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی میں ملوث ایک ملزم عابد علی پہلے بھی گینگ ریپ کی ایک واردات میں ملوث رہا ہے اور سزا سے بچ گیا تھا۔ یہی اصل وجہ ہے۔ اس قسم کے دس میں سے صرف ایک یا دو واقعات میں ملزمان کو سزا ملتی ہے اور سزا دلوانے کے لئے بھی مظلوم زور لگاتا ہے، ریاست زور نہیں لگاتی۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ سندھ کے شہر سیہون میں ایک عورت نے پسند کی شادی کر لی۔ اُس کے والد کی شکایت پر پولیس نے عورت کو گرفتار کیا اور سول جج کی عدالت میں پیش کیا۔ سول جج نے والد اور پولیس سے کہا کہ آپ عدالت سے باہر جائیں میں ملزمہ سے اُس کی مرضی معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ جج نے عورت سے پوچھا کہ تم نے والد کے ساتھ جانا ہے یا خاوند کے ساتھ؟ عورت نے کہا خاوند کے ساتھ جانا ہے تو جج صاحب نے عورت کو اپنے چیمبر میں بلایا اور ریپ کر دیا۔ عورت کی شکایت پر مقدمہ درج ہو گیا لیکن جج کو سزا نہیں ملی۔
زیادہ پرانی بات نہیں۔ اوکاڑہ اور کراچی کے علاقے لانڈھی میں تازہ قبروں سے عورتوں کی لاشیں نکال کر اُن کی عصمت دری کرنے والے افراد گرفتار کئے گئے۔ دونوں کو سزا نہیں ملی۔ یہ کیسا مسلم معاشرہ ہے جہاں زندہ تو کیا مردہ عورتوں کی عزت بھی محفوظ نہیں۔
میں نے ایک ماہر نفسیات سے اس معاملے پر بات کی تو اُس نے بڑی لمبی چوڑی وجوہات بیان کر ڈالیں۔ میں ان وجوہات میں نہیں جانا چاہتا۔ میری ناقص رائے میں مردوں کو اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کو سب کے لئے برابر کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کے دور میں موٹروے پر ایک عورت کا نہیں بلکہ انصاف کا ریپ ہوا ہے۔ انصاف کو ریپ کرنے کی جرأت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حکومت وقت للکار للکار کر کہے کہ ہم نواز شریف کو پاکستان واپس لائیں گے کیونکہ وہ اشتہاری ہے۔ جب کوئی پوچھے کہ آئین کو ریپ کرنے والا پرویز مشرف بھی تو اشتہاری ہے اُسے کب لائو گے تو حکومت کے وزیر سوال پوچھنے والے کو نواز شریف کا حمایتی قرار دے ڈالتے ہیں۔ جس ملک میں طاقتور اور مظلوم کے لئے مختلف قانون ہو وہاں انصاف کا ریپ نہیں رک سکتا۔