نواز شریف کا ڈبل سرور

فوٹو: فائل 

یہ لندن میں 20 ستمبر کا ایک خوشگوار دن تھا، اسلام آباد میں پاکستان کی تمام سیاسی و دینی جماعتیں ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کے لیے اکٹھا تھیں اور لندن کے صحافتی حلقوں میں بس سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی تقریر کا غوغا تھا جو انہوں نے یہاں سے ویڈیو کالنگ کے ذریعے ’’اے پی سی‘‘ میں کی تھی۔ 

بوجوہ میں اس تقریر کے دوران اور پھر شام کو حسین نواز کے دفتر میں صحافیوں کے ساتھ میاں صاحب کی ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں بھی شریک نہیں تھا، شریف فیملی کا خصوصی طور پر لندن میں یہ خاصہ رہا ہے کہ پریس کانفرنس ہو یا کوئی دوسری تقریب یہ فرداً فرداً ہر ایک کی نشست پر جاکر لوگوں سے ملتے ہیں اور صحافیوں کو بھی مناسب وقت دیتے ہیں، 20اور 21ستمبر کی درمیانی شب تک کیونکہ ملکی سیاست کے ایک اور دلچسپ موڑ کے موضوع پر گفتگو ہوتی رہی اس لئے چشمِ تصور میں کچھ ایسے تارو پود بنے جانے لگے کہ میں خود بھی جیسے دس بارہ گھنٹے ان میڈیا پرسنز کے ساتھ حسین نواز کے دفتر کے باہر فٹ پاتھ پر تھا جنہیں دو ایک بار پولیس نے سرزنش بھی کی کہ کورونا وائرس کے ’’ایس او پیز‘‘ کا خیال رکھا جائے لیکن اس موقع پر صورتحال خوش کن اس لئے بھی رہی کہ حسین نواز کے دفتر سے چائے پانی اور پیزا سے ان میڈیا والوں کی تواضع کی جاتی رہی۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے ’’ڈبل سرور‘‘ کی وجہ کیا ہے آخر؟ حالانکہ ان کی حکومت تیسری دفعہ مدت سے پہلے ختم کی گئی، انہیں جیل بھی بھجوایا گیا، وہ گزشتہ دو سال سے مسلسل زیرِ عتاب ہیں، اپنی ملٹی پل بیماریوں کے علاج کے لئے لندن مقیم ہیں، ان کی بیٹی، بھائی، بھتیجے، پارٹی کے کئی ایک رہنما اور ساتھی ’’نیب‘‘ کے شکنجے میں ہیں اور خود نواز شریف کو اشتہاری تک قرار دے دیا گیا ہے لیکن وہ پھر بھی مطمئن بلکہ ڈبل سرور میں ہیں۔

رات کا یہ پچھلا پہر اور میں اسی ذہنی کشمکش میں تھا کہ جس طرح ہر مصیبت میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت عملی چھپی ہوتی ہے شاید میاں صاحب کو بھی کسی اور سے کوئی موجِ پروا یا بادِصبا کا کوئی جھونکا آیا ہے اور اسی لئے وہ اپنے لئے اس پُرآشوب دور میں بھی یک نہ شد ڈبل سرور کے جلو میں خراماں خراماں طے شدہ کسی نئی منزل کی طرف رواں ہیں۔

کیا میاں صاحب کا یہی اعتماد اور یقینِ محکم ہے جو بہرحال ان کی جماعت کو قابلِ لحاظ حد تک قائم رکھے ہوئے ہے حالانکہ بعض سیاسی نجومی تو ایک عرصہ سے ن میں سے ش نکلنے کی پیشنگوئیاں کرتے چلے آرہے ہیں؟ 

چند لمحوں کے لئے میں نے آنکھیں بند کیں تو ایک نیا منظر چلنے لگا، یوں محسوس ہوا کہ میاں صاحب نے اپنی روایت کے مطابق ان میڈیا پرسنز کو جو سارا دن ان کے دفتر کے نیچے کھڑے تھے، آف دی ریکارڈ ایک ملاقات کے لئے اوپر بلا لیا ہے اور اس موقع پر میں بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھا، اسٹاف نے ہمیں بڑی تکریم سے بٹھایا، میاں صاحب نے سب کا حال چال پوچھتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ سب نے میری تقریر سنی اور آپ کو کیسی لگی؟ 

اب یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے دستِ شفقت اور حسنِ نظر کی بدولت بڑی تعداد میں میڈیا پرسنز ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کے چند برسوں سے سامنے آنے والے جمہوری بیانیے سے متفق بھی ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مذکورہ سوال پر میرے ساتھیوں نے باری باری اپنی رائے دی مثلاً کسی نے کہا مجھے تو 2007میں لندن میں ہونے والی ’’اے پی سی‘‘ میں کی گئی آپ کی تقریر یاد آگئی، کسی نے کہا میاں صاحب آپ کی تقریر سن کر تو پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں، کسی کا خیال تھا کہ یہ تقریر پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دے گی۔

خواب و خیال کی دنیا جس طرح کائنات کی طرح وسیع و عریض بلکہ لامحدود ہوتی ہے اس لئے مذکورہ تقریر میں سے ہر کوئی اپنی سوچ اور اپنی مرضی کے مطابق معنی نکال رہا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر یہ سبھی جواب میاں صاحب کے لئے مثبت تھے، ایک دوست نے جواب دینے کے بجائے الٹا اُن سے سوال کر دیا کہ میاں صاحب آپ تین دفعہ وزیراعظم رہے، آپ کی زبان بندی کردی گئی تو آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ 

میاں صاحب نے چھت کو چند لمحے گھورتے ہوئے جواب دیا ’’میں دو سال دو مہینے سے اس کرب کو محسوس کررہا ہوں‘‘!! نواز شریف کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ ’’میاں صاحب آج آپ کی تقریر کے بعد میں تو بڑا سرور محسوس کررہا ہوں‘‘ اسی طرح ایک دوسرے میڈیا پرسن نے بھی سرور کا لفظ استعمال کرکے میاں صاحب کے اعتماد اور ارادوں کو تقویت پہنچائی!! میاں نواز شریف سے متعلق ایک بات جو ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں اکثر کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اندر کی بات کسی کو نہیں بتاتے، رائے سب کی لیتے ہیں لیکن عملدرآمد اپنی منشا کے مطابق کرتے ہیں۔

میڈیا پرسنز کی مذکورہ آف دی ریکارڈ ملاقات میں کیونکہ میں بھی موجود تھا اس لئے وہ گویا ہوئے میری تقریر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میرا جواب خاصا طویل تھا، مجھے لگا کہ میاں صاحب بار بار پہلو بدل رہے ہیں اور میرے الفاظ ان کو گراں گزر رہے ہیں چنانچہ جب میں خاموش ہوا تو نواز شریف بولے ’’پلیز آج یہ باتیں رہنے دیں، کوئی اور سوال کریں، میں اس وقت ڈبل سرور میں ہوں‘‘۔ 

اس کے بعد میں نے کیا کہا، مجھے یاد نہیں کیونکہ میرا خواب ٹوٹ چکا تھا اور یہ صبح صادق کا وقت تھا شاید میرا جواب تلخ تھا!! اب میاں صاحب کے ڈبل سرور کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں، یہ تو خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر سمجھا اور جانا جا سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔