Time 29 ستمبر ، 2020
بلاگ

گُھڑ مَس

فوٹو: فائل 

یہ لفظ گُھڑمَس ڈکشنری میں نہیں ہے مگر یہ لفظ تب استعمال ہوتا ہے جب کنفیوژن حد کو چھو جائے، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، طعنے اور گالیاں عروج پر ہوں، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے غرضیکہ صورتحال ایسی پریشان کن ہو کہ کسی کو اس صورتحال کا نتیجہ معلوم نہ ہو۔ 

یہ لفظ آج کی پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بالکل صادق آتا ہے، وار اور جوابی وار، رنگ برنگی آوازیں، شور شرابہ اور نتیجہ نامعلوم۔ یہی آج کل کی سیاست ہے، گُھڑمَس۔

نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر اور پھر پے در پے ٹوئٹس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اپنی طویل خاموشی توڑ کر دوبارہ سے جارحانہ سیاسی راستے پر رواں دواں ہیں۔ 

دوسری طرف سے بھی مصالحت، مصلحت یا مفاہمت کی بات نہیں کی جا رہی بلکہ ن لیگ کے خلاف مزید کارروائیوں کا عندیہ دیا جا رہا ہے، آل پارٹیز کانفرنس جلسے جلوسوں کا پروگرام دے چکی ہے۔

مصلحت کیش اور صلح جو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر گلگت بلتستان کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کو صلاح مشورے کے لیے بلاتے ہیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہیں، جماعت اسلامی کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کر رہی ہے، ہر طرف انتشار اور محاذ آرائی کی خبریں ہیں، اسے ہی کہتے ہیں سیاسی گُھڑمَس۔

اس نئی صورتحال کا آغاز تو وکلاء کی طرف سے کروائی گئی آل پارٹیز کانفرنس سے ہوا۔ ڈاکٹروں اور وکلاء کی لڑائی کے بعد کی صورتحال میں وکلاء کا جمہوری جدوجہد کو لیڈ کرنا بہت بڑی تبدیلی ہے، حکومتی گرانٹس اور عہدوں کی پیشکشوں سے آگے جاکر وکلاء کو قانون اور جمہوریت کا محافظ بنانا کارنامے سے کم نہیں۔

وکلاء کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقاریر سے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ سیاست اور واقعات کے تیور جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں، تجربہ کار اور سیاست کے دائوپیچ سے واقف عابد ساقی نے اِس کانفرنس کو نئی سیاست کی بنیاد بنا دیا، بابائے وکلاء احسن بھون اور مسلم لیگ ن کے وکیل رہنما اعظم نذیر تارڑ کا وکلاء کو جمہوری پلیٹ فارم پر کھڑا کرنے میں اہم کردار اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

وکلاء کی سبقت کے بعد اہلِ سیاست کی باری تھی، سیاسی ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی خاموشی توڑنے کے لئے ٹائمنگ کا انتخاب خود کیا، وہ تقریر کرنا چاہتے تھے سو اُنہوں نے چھپر پھاڑ کر کی  کہتے ہیں سیاست میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے اِس ٹائمنگ کا انتخاب کیوں کیا؟

اندازہ یہ ہے کہ شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے مفاہمانہ بیانیے سے مطلوبہ سیاسی نتائج برآمد نہیں ہو رہے تھے، ن لیگ کو علم ہو گیا تھا کہ شہباز شریف گرفتار ہونے والے ہیں۔ 

دوسری طرف محمد زبیر کی عسکری رہنماؤں سے ملاقاتوں سے بھی کوئی ریلیف نہ مل سکا اس صورتحال میں مزاحمتی بیانیہ نواز شریف کو سوٹ کرتا تھا چنانچہ انہوں نے وہی بیانیہ اپنایا۔

وفاقی دارالحکومت میں یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ نواز شریف موجودہ حکومت کے عرب ممالک سے تعلقات میں دراڑ ڈال رہے ہیں، کئی حکومتی حلقے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ برادر عرب ملک سے تعلقات میں خرابی کی ایک وجہ میاں نواز شریف سے لندن میں ہونے والی بعض ملاقاتیں بھی ہیں، نواز شریف نے ٹائمنگ کا جو انتخاب کیا ہے اس کے پسِ منظر میں یہ ملاقاتیں اور اُن سے پیدا ہونے والی امیدیں بھی ہو سکتی ہیں۔

شہباز شریف کی گرفتاری کی خبر کالم لکھتے لکھتے ملی سو گُھڑمَس اور بڑھے گا، مفاہمانہ آواز کی گرفتاری کا واضح مطلب جارحانہ بیانیے کو فروغ ہوگا، آنے والے دنوں میں حکومت شہباز شریف کے جیل جانے پر ریلیف محسوس کرے گی مگر دوسری طرف اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کے بعد سے اپوزیشن حکومت پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوگی۔

توقع یہ تھی کہ حکومت دسمبر تک کے 6 ماہ کے آزمائشی دور میں اپوزیشن سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر اپنی پوری توجہ گورننس پر دے گی تاکہ حکومت پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند ہو سکیں مگر حکومت کو اپنی مضبوطی کا احساس ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، اداروں کی پشت پناہی کے بعد سے حکومت اپوزیشن کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں۔

وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے تک کو تیار نہیں، اسی لیے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈر کی میٹنگ خود لینا پڑی تھی وگرنہ عام طور پر وزیراعظم خود اپوزیشن کے ساتھ ایسی میٹنگز کرتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس، نواز شریف کے ٹویٹس اور پھر اُس کے بعد شہباز شریف کی گرفتاری سے سیاسی فضا میں گرمی بڑھے گی، عمومی طور پر تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپوزیشن کو جیلوں میں بھیج کر حکومت مضبوط ہو جاتی ہے مگر عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب اپوزیشن جیلوں میں جاتی ہے یا پھر حکومت اِسے دیوار کے ساتھ لگاتی ہے تو پھر اپوزیشن مختلف حلقوں کے ساتھ مل کر سازباز کرتی ہے۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب اپوزیشن کو جیلوں میں بند کیا جا رہا تھا اور اُن کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تھی تو یہی وہ دور تھا جب اپوزیشن نے سازباز کے لیے سوچنا شروع کر دیا اور پھر 5جولائی 1977کو جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔

مجھے حالیہ گُھڑمَس دیکھ کر 70کی دہائی یاد آرہی ہے، چودھری ظہور الٰہی، ملک قاسم، میاں طفیل اور ملک کے دیگر بڑے بڑے نام جیلوں میں بند تھے، اب بھی حکومت کی مخالف دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈروں کو خطرہ ہے کہ وہ کسی روز بھی جیل بھیج دیے جائیں گے، جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کے نتائج نظام کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔

حکومت جس ڈگر پر چلتی جا رہی ہے اس میں اپوزیشن کے لیے ٹکرانے اور سازش کرنے کے سوا دیگر تمام راستے بند ہو رہے ہیں، یہ سوچنا کہ اپوزیشن کو جیلوں میں بھیج کر اور اُن کو قائم مقدمات میں سزائیں سنا کر حکومت آرام سے چلتی رہے گی، خیالِ خام ہے۔ یہاں تو چند ہزار لوگ رکھنے والے مذہبی گروہ اگر باہر نکل پڑیں تو اُنہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

عمران کے چند سو کے دھرنے نے دوتہائی اکثریت والی نواز شریف حکومت کو ہلا دیا تھا، تحریک لبیک کی ریلی نے حکومتی انتظام و انصرام اور لا اینڈآرڈر کو فیل کر دیا تھا، اِس لیے اُس دن سے ڈرنا چاہیے جب کروڑوں ووٹ لینے والی ن لیگ اور لاکھوں ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی میدان میں نکل پڑیں ایسے میں حکومت کے لیے مستحکم رہنا مشکل ہو جائے گا۔

میری ذاتی رائے تو شروع سے یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو افہام و تفہیم سے چلنا چاہیے، عوامی فلاح کے لیے مل کر قانون سازی کرنی چاہیے۔

حکومت کو پورے 5 سال ملنے چاہئیں اور 5 سال بعد شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونے چاہئیں لیکن اگر حکومت اپوزیشن کو اسی طرح دیوار سے لگا کر توڑنے کی کوشش کرتی رہی تو پھر سارے جمہوری خواب بکھر جائیں گے اور اپوزیشن اور حکومت کا ٹکراؤ ناگزیر ہو جائے گا، گُھڑمس کا نتیجہ کسی کے بھی حق میں اچھا نہیں ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔