بلاگ
Time 14 اکتوبر ، 2020

پی ڈی ایم ۔ کونسی جماعت کہاں کھڑی ہے؟

فوٹو: فائل 

دکھی سب ایک جیسے ہیں، پی ڈی ایم میں شامل ہر جماعت حد درجہ تپی ہوئی ہے لیکن ہر ایک کے ردِعمل کی نوعیت اور سنجیدگی کا لیول مختلف ہے۔ 

آغاز مسلم لیگ (ن) سے کرلیں تو میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہیں نااہل کیا گیا، ان کی پارٹی کے لوگوں کو توڑا گیا، الیکشن میں(ان کے خیال میں) ان کے ساتھ بھرپور دھاندلی کی گئی، ان کو اور ان کی بیٹی کو ایسی حالت میں جیل جانے پر مجبور کردیا گیا جب ان کی اہلیہ لندن میں بسترِمرگ پر پڑی تھیں۔ 

ان کے خیال میں انہوں نے پھر بھی شہباز شریف کے ذریعے مفاہمت کی کوشش کی لیکن انہیں معاف نہیں کیا گیا اور الٹا شہباز شریف کو بھی اندر ڈالا گیا، آخری مرتبہ ان کے ساتھ دوران بیماری یہ ڈیل ہوئی کہ وہ بیٹی مریم نواز سمیت باہر چلے جائیں گے۔

یوں انہوں نے اور مریم نواز نے چپ کا روزہ رکھ کر کارکنوں کو بھی مایوس کیا اور میڈیا کے طعنے بھی برداشت کئے لیکن انکے خیال میں انکے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے، اب کی بار وہ اپنے سے زیادہ اپنے بچوں اور بالخصوص مریم کے ساتھ سلوک پر دکھی اور برہم ہیں جبکہ مریم اپنے والدین کے ساتھ سلوک کی وجہ سے غصے میں ہیں۔

آصف علی زرداری کا دکھ بھی میاں نواز شریف سے کم نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں شرمناک حد تک تعاون کیا، پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنی پارٹی کے امیدوار کی قربانی دے کر صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوایا لیکن الیکشن سے قبل ان پر انکشاف ہوا کہ خدمت کا صلہ دینے کی بجائے ان کو سندھ سے فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ 

انہوں نے شور مچایا اور رابطے کیے تو الیکشن سے چند روز قبل ان کو سندھ واپس دلوانے کا فیصلہ کیا گیا اور جواب میں انہوں نے ایک بار پھر تابعداری کی، انتخابات کے بعد پہلے اپوزیشن کو اسمبلیوں میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ پھر صدارتی الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن کو ناراض کرکے پی ٹی آئی کی گیم کو کامیاب بنایا لیکن اس کے باوجود ان کی گلو خلاصی نہیں ہوئی، انہیں گرفتار کیا گیا اور کیسز کو آگے بڑھایا گیا۔ 

مولانا فضل الرحمٰن یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ پندرہ سال میں وہ ٹی ٹی پی کے مقابلے میں ریاست کے ساتھ کھڑے رہے اور تین خود کش حملوں تک کا سامنا کیا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 2013کے انتخابات میں اُن کے ساتھ بھی دھوکہ کیا گیا اور اُن کے خیال کے مطابق پختونخوا میں اُن کا حق چھین کر پی ٹی آئی کو اور بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو دلوایا گیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے دن سے جارحانہ موڈ میں تھے اور اسمبلیوں میں بیٹھنا نہیں چاہ رہے تھے لیکن جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ کیا تو وہ بھی مجبوراََ اسمبلیوں میں جا بیٹھے۔ 

مولانا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں اُن کے حوالے سے میڈیاپر پابندیاں لگائی گئیں اور پی ٹی آئی کے ذریعے اُن کو بے توقیر کرنے کی کوششیں زوروں پر رہیں، مولانا صاحب کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ نوے کی دہائی سے عمران خان کے بارے میں سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ 

اُنہیں اس بات کا بھی غصہ ہے کہ دھرنے کے دوران وعدے کرکے اُن کو اٹھوایا گیا لیکن پھر وہ وعدے پورے نہیں کئے گئے اور جب اُنہوں نے وعدے یاد دلانا شروع کئے تو نیب اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے ذریعے ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ 

اے این پی،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچ قوم پرستوں کو بھی یہ شکایت ہےکہ گزشتہ انتخابات میں ان کے ساتھ زیادتی کی گئی اور وہ سب انتخابی نتائج کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کررہی ہیں لیکن چونکہ بڑی جماعتیں کسی بڑے اقدام کے موڈ میں نہیں تھیں، اس لیے بادل نخواستہ وہ بھی خاموش رہیں۔ 

یہی شکایت قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کو بھی ہے اُن کے بقول اُن کو اپنی روایتی سیٹ پر بھی ہروایا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل کونسی جماعت کتنی سنجیدہ ہے اور کون کس حد تک جانے کو تیار ہے؟ میرے خیال میں مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، بلوچ قوم پرست جماعتیں، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاؤ انتہائی سنجیدہ ہیں اور ہر حد تک جانے پر آمادہ ہیں۔

تاہم پیپلز پارٹی اور اے این پی کی پوزیشن تھوڑی مختلف ہے، زرداری صاحب جلد انتخابات کے متمنی نہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اب کی بار سندھ بھی ان سے چھین لیا جائے گا لیکن دوسری طرف انہیں یہ بھی احساس ہوا ہے کہ تابعداری سے بھی ان کی جان خلاصی نہیں ہورہی۔ 

علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے رابطے بحال ہیں، ایک اہم ملاقات بلاول بھٹو کے ساتھ اے پی سی سے پہلے ہوئی تھی اور ایک اس کے بعد، اسی طرح اے این پی بھی رابطے میں ہے جبکہ وہ بلوچستان حکومت کا بھی حصہ ہے، اے این پی، پی ڈی ایم کے اتحاد کا حصہ رہنا چاہتی ہے لیکن قائدانہ کردار کی بجائے پچھلی صفوں میں، اے این پی کے لیے ایک بڑا مسئلہ پی ٹی ایم بھی ہے اور وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ پی ٹی ایم کو پی ڈی ایم کا حصہ بنایا جاتا ہے یا نہیں۔ 

پی ٹی ایم کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے، جس اے پی سی میں پی ڈی ایم تشکیل پائی اس میں ایم این اےمحسن داوڑ کو مدعو کیا گیا تھا لیکن تنظیم کے سربراہ منظور پشتین کو اس وقت دعوت دی گئی تھی اور نہ اب تک ان کے ساتھ کوئی رابطہ کیا گیا ہے، خود پی ٹی ایم کے لیے بھی ایک سیاسی اتحاد کا حصہ بننا بڑا مشکل مرحلہ ہوگا لیکن ابھی تک پی ڈی ایم کی قیادت بھی مخمصے کا شکار ہے۔ 

علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کو بڑی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی پر پورا اعتماد بھی نہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ میدان گرما کر کہیں وہ دوبارہ ڈیل نہ کرلیں تاہم خود مولانا اب کی بار نون لیگ کے بارے میں مطمئن ہیں جبکہ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اب اجتماعی فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکے گی۔ 

مولانا اس بات پر مطمئن ہیں کہ بہت جلد ایسی فضا بن جائے گی کہ پی ڈی ایم سے الگ ہونے والی جماعت کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے سب کو مجبوراً متفقہ فیصلوں کو قبول کرنا ہوگا۔ 

میری مولانا اور میاں نواز شریف دونوں سے بات ہوئی ہے، اب کی بار دونوں ایک دوسرے پر کامل اعتماد کررہے ہیں اور اپنی کامیابی کے بارے میں حددرجہ مطمئن ہیں، اس اطمینان کی وجہ کیا ہے؟ سردست میں اس کے بارے میں کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا ہوں تاہم یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ وہ بجا مطمئن تھے یا پھر کسی غلط فہمی کا شکار تھے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔