16 اکتوبر ، 2020
گزشتہ دو سال سے ملک میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن وزیراعظم نوٹس لینے اور وزرا بیانات دینے تک ہی محدود رہے، وزیراعظم عمران خان اب تک مہنگائی پر گیارہ نوٹس لے چکے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی نتائج سامنے نہیں آسکے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی وزیراعظم نے نوٹس لیا تو مہنگائی نے کیا کم ہونا تھا وہ اشیاء ہی نا پید ہو گئیں، اب خدا خیر کرے وزیراعظم نے ایک بارپھرنوٹس لیا ہے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے وزیراعظم نے پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کو متحرک کر کے اختیارات دینے کا اعلان کیا ہےجو نا قابل فہم ہے،کیونکہ حکومتی مشینری اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ادارے موجود ہیں۔
ٹائیگر فورس کو نہ تو آئینی طور پر اور نہ ہی قانونی طور پر اس طرح کے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ دکانوں اور گوداموں کو چیک کر سکیں یا تاجروں سے پوچھ گچھ کر یں۔
اس کے علاوہ کیا ایسے اقدامات سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جب بجلی اور گیس کے نرخوں میں روز بروز اضافہ خود حکومت کرتی ہو؟ پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ بڑھتے ہی جاتے ہوں تو باقی تمام چیزوں پر تو خود بخود اثر پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ چینی اور گندم پہلے یہ کہہ کر بر آمد کی گئی کہ ملکی ضرورت سے زیادہ ہیں، اب چینی اور گندم کو در آمد کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک میں قلت ہو گئی ہے، یہ کیا تماشا ہے؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے وزیراعظم کو چینی اور گندم کے وافر ذخائر کی موجودگی کا بتایا اور اضافی گندم اور چینی کو بر آمد کرنے کی اجازت حاصل کر لی، پھر وزیراعظم کو ان اشیاء کی قلت کا بتا کر درآمد کرنے کی اجازت بھی لے لی۔
وزیراعظم نے ان لوگوں کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لیا، ایسے افراد کے خلاف تو سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی، بجلی اور گیس کے بارے میں غلط اعداد و شمار بتا کر ان کے نرخ بڑھانے والے بھی تو حکومت کا اہم ترین حصہ ہیں۔
یہی کچھ کورونا کے دوران ہوا، جب پٹرولیم مصنوعات ٹکہ سیر ہو گئی تھیں تو ان کی درآمد روک دی گئی تھی پھر یکدم قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا، ان سے بھی کسی نے پوچھ گچھ کی نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی، کرے کوئی بھرے کوئی کے مصداق اب عوام اور چھوٹے تاجر ہی نتائج بھگتیں گے۔
کیا ہر مشکل اور مہنگائی بھگتنے کے لیے عوام ہی ہیں؟ یہ تمام وہ سوالات ہیں جو عوام حکمرانوں سے کر رہے ہیں اور ظاہر ہے جواب بھی حکمران ہی دے سکتے ہیں، اب عام آدمی کو ریلیف چاہیے۔
ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کرنے کا فائدہ کن کی جیبوں میں جا رہا ہے، یہ بھی حکومت ہی کو معلوم ہوگا؟ غریب آدمی کے لیے پہلے دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو رہی تھی اب تو ایک وقت کی روٹی بھی نا ممکن ہو رہی ہے، اور یہ سب ان عام لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی 65 فیصد تعداد خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین اور سفید پوش لوگ تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں اور جو لوگ کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں ان کا حال اور بھی ابتر ہے، وہ مکان کا کرایہ دیں، بجلی گیس کے بڑھتے ہوئے بل ادا کریں،گھر میں کوئی بیمار ہو اس کے لیے دوا خریدیں، بچوں کی اسکول فیس اور دیگر اخراجات پورے کریں یا روٹی کھائیں، کوئی بھی حکومتی بقراط محدود آمدنی میں ان اخراجات کا حل تو بتائے۔
پی ڈی ایم نے پہلا جلسہ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں کرنے کا نہ صرف اعلان کیا ہے بلکہ اس کے لیے بھرپور تیاریاں بھی کر رکھی ہیں، جس دن آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس دن 16 اکتوبر اور جمعہ کا دن ہوگا۔
دعا ہے کہ پی ڈی ایم کا جلسہ خیر و عافیت سے منعقد ہو، لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت بظاہر اجازت دے کر بھی جلسہ نہیں ہونے دے گی یا اس جلسہ کو ناکام بنانے کے لیے وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کرے گی جو ملک میں اختیار کیے جاتے رہے ہیں حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی اپوزیشن کے جلسوں کو کسی بھی طرح روکنے کے خلاف آواز بلند کرتی رہی۔
لیکن اب جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے تواپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کے لیے سرگرم دکھائی دیتی ہے، ینگ ڈاکٹرز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے کہ کورونا کی وجہ سے جلسوں پر پابندی عائد کی جائے، بتایا جا تا ہے کہ سڑکیں بند کرنے کے لیے ہر تھانے کے ایس ایچ او کو چالیس کنٹینرز جمع کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں تاکہ سڑکیں بند کی جا سکیں۔
بعض اہم رہنماؤں کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے اقدامات کا بھی امکان ہے، بڑے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اپوزیشن جماعتوں کے سرگرم کارکنان کو گرفتار کرنے کا بھی سنا ہے، اس لیے بعض اہم رہنما اور کارکنان رو پوش ہو رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ حکومت ہر طریقہ سے پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ کا جلسہ روکنے یا ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہےجبکہ پی ڈی ایم ہر حال میں یہ جلسہ منعقد کرنے کے لیے پوری تیاریوں کے ساتھ میدان میں ہے۔
اگر صورتحال یہی رہی تو حالات خراب ہونے اور پھر خراب تر ہوتے چلے جانے کا خدشہ ہے، یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کیوں پی ڈی ایم کے جلسے روکنا چاہتی ہے؟پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق جلسے تو ابتدا ہیں، وہ تو انتہا تک جانے کی تیاریاں کر چکے ہیں۔
ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے زور پر اپوزیشن کو زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتا اور اگر مہنگائی کے مارے عوام بھی سڑکوں پر آگئے تو پھرکیا ہوگا؟ ملک کا نقصان نہ ہو یہی دعا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔