20 اکتوبر ، 2020
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا، چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلاؤں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچاؤں گا۔
اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لیے ہوئے ہے، چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے، شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔
یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔
بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے، حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔
ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لیے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے، اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے، شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا، شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔
شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11 پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10 اپریل 1986 کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔
افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا، کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔
چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے، سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔
شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔
شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا، تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں، پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی، شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔
چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔
تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟
چیتے کے لیے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لیے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔
جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔
البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔
ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔
شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔
شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔