21 اکتوبر ، 2020
دسمبر میں کیا ہونے والا ہے،کون جا رہا ہے اور کون آ رہا ہے؟ہلکی پھلکی موسیقی ہوگی کہ پکا راگ؟ ایک طرف حزب اختلاف کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت دسمبر نہیں دیکھ پائے گی تو دوسری طرف کئی حکومتوں کا تجربہ رکھنے والے سینئر سیاست دان اور وفاقی وزیر شیخ رشید دعویٰ کر رہے ہیں کہ بڑی جھاڑو پھرنے والی ہے اور مسلم لیگ (ن) کا وجود ہی نہیں رہے گا۔
مجھے تو خیر اچانک دہشت گردی کی نئی لہر سے پریشانی ہے، ایک بات طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے لیے یہ فیصلہ کن معرکہ ہے۔
ایسے میں ایمپائر کا رول انتہائی اہم ہو گا، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ماسوائے 1983کی تحریک بحالی جمہوریت( ایم آر ڈی) کے سب تحریکیں شہری علاقوں میں چلی ہیں۔
1967اور 1977کی تحریکوں کے نتائج مارشل لا کی صورت میں سامنے آئے جبکہ 2007 میں پرویز مشرف کے خلاف وکیلوں اور سیاسی تحریک کے نتیجے میں مشرف صاحب کو جانا پڑا۔
حکومتیں اکثر وہی غلطیاں کرتی ہیں جو موجودہ حکومت کر رہی ہے، خود ہی سیاسی ماحول گرم کر دیا اور معرکہ کی تیاری شروع کر دی، اب تو ’’کورونا‘‘ پر بھی سیاست ہو رہی ہے، یہ بات طے ہے کہ کورونا کے واقعات میں تیزی آئے گی تو الزام اپوزیشن پر جائے گا۔
کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں حکومت نے حزبِ اختلاف کو ایندھن فراہم کر دیا ہے، شاید ہم میں سے کسی کو اس درد کا احساس نہ ہو جس کا گزارہ صرف روٹی اور پیاز پر ہوتا ہے، اب تو دونوں چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں، 6 روپے کی روٹی اب 8 روپے کی ہو گئی ہے اور اب پیاز کے بجائے پانی پر گزارہ کر رہاہے وہ بھی گندا پانی۔
اصل لڑائی پنجاب میں ہونی ہے جہاں حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت کے طور پر موجود ہے، اب تو اس کے رہنماؤں نے جیل بھی دیکھ لی ہے، ان پر سنگین الزامات ہیں، کیا یہ سب نا اہل ہو جائیں گے یا ایک بار پھر ڈرائی کلینر کی دکان کھل جائے گی جس کی امید لگائے شیخ صاحب کب سے مسلم لیگ (شین) بننے کا انتظار کر رہے ہیں۔
احتساب میں تیزی آتی جا رہی ہے، چیئرمین نیب جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کو موجودہ حزب اختلاف لائی تھی، اب اگر انہوں نے بھی سیاست دانوں سے وفاداری بدل لی ہے تو عمران کیا کرے، کبھی موقع ملا تو جناب خورشید شاہ سے، زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب سے معلوم کروں گا کہ یہ قمر زمان چوہدری کیوں نہ بن سکے، جاوید صاحب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ میں یہ تبدیلی ویڈیواور جاوید چوہدری کے انٹرویو کے بعد آئی یا پہلے؟
بہرحال پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ہدف کوئی بھی ہو، مائنس ون سے بات مائنس جمہوریت کی جانب نہ چلی جائے، عمران خان کا استعفیٰ لینا آسان نہیں ہو گا۔
جلسوں، ریلیوں اور احتجاج کے دوسرے ذرائع سے حکومتیں گئی ہیں تو آمریت کا تحفہ ہی دے کر، دوسری طرف اگر آپ کی نظر میں سب چور، ڈاکو، مافیا اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے تو پھر ان کی سیاسی طاقت اب تک موجود کیوں ہے؟کیا لوگوں کو آزاد عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے یا پھر نیب اور FIA کو اتنا سیاست زدہ بنا دیا گیا ہے کہ سچ بھی جھوٹ لگتا ہے اور احتساب انتقام؟ احتجاجی تحریک زور پکڑتی ہے کہ نہیں؟ یہ ہمیں ایک ماہ میں پتا چل جائے گا۔
اصل معرکہ پنجاب میں ہی نظر آئے گا، 2014میں بھی لانگ مارچ لاہور سے اسلام آباد تک ہوا تھا، اس وقت بھی اصل طاقت ،خان صاحب کو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دی تھی، اس بار پی ڈی ایم کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے، ان کا موقف واضح ہے، وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں اور عمران کا استعفیٰ۔ نواز شریف سیاست میں واپسی جبکہ پی پی پی حزبِ اختلاف بھی ہے اور حزبِ اقتدار بھی۔
مقدمات کے فیصلے اگر ان دونوں جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف آ گئے اور اُن میں سے کچھ نا اہل ہو گئے تو وزیراعظم عمران خان مارچ کے بعد انتہائی طاقتور ہو جائیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ اسی طرح کی ترامیم آئین میں لے آئیں جیسی میاں صاحب نے 1997کے بعد کرنے کی کوشش کی تھی۔
نظر یہ آتا ہے کہ اگر شریف برادران بشمول خاندان سیاست سے باہر نہیں ہوتا تو عمران کیلئے مارچ، اپریل میں بلدیاتی الیکشن کرانا مشکل ہے، نواز شریف کا جارحانہ بیانیہ ماضی میں بھی سامنے آیاتھا جب انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کی بات کی تھی، کارگل پر کمیشن بنانے اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کی بات کی تھی۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، کیا اس بار کچھ مختلف ہوگا؟ پی پی پی کا بڑا مسئلہ قیادت کا ہے، بے نظیر بھٹو کی شہادت نے ان کی سیاست میں بڑا خلا پیدا کر دیا ہے، آصف زرداری کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی ہے، بلاول بھٹو کے سامنے ابھی ایک لمبی اننگز کھیلنے کا موقع ہے۔ پنجاب میں برسوں بعد پارٹی کو موقع ملا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ وہاں جلسوں میں پی پی پی کے کتنے جھنڈے نظر آتے ہیں؟
پاکستان میں رائج ’جمہوری نظام‘ کے بارے میں دو واضح آرا موجود ہیں، کچھ کا خیال ہے یہ جمہوریت ڈھونگ ہے اور چند خاندانوں تک محدود ہے، وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں مارشل لایا آمریت بھی انہی کی وجہ سے آتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ پھر متبادل کیا ہے؟ اس کا جواب تا حال نہیں آیا۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد میں خامی ہو سکتی ہے مگر نظام یہی بہتر ہے اور اس میں بہتری لانی چاہیے، مگر لائے گا کون؟ کبھی ہم صدارتی نظام کی بحث میں الجھ جاتے ہیں تو کبھی کسی آمر کا انتظار کرتے ہیں، دنیا میں برسوں لگے جمہوریت آنے میں، میری ذاتی رائے میں سیاسی جماعتوں میں ’’جمہوریت‘‘ آنا پہلی سیڑھی ہو گی۔
ایک بہتر نظام کیلیے اب تک یہ جماعتیں، ماسوائے جماعت اسلامی کے، اس میں ناکام رہی ہیں، جماعتوں کے اندر احتساب کا نظام قائم ہو گا تو شاید نیب کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کوئی جماعت الیکشن ہار جائے تو اس کےسربراہ کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اس حکومت نے پانچ سال پورے کئے تو جمہوری تسلسل آگے ہی بڑھے گا ورنہ ہم پھر واپس 2007میں چلے جائیں گے۔ یا پھر…
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔