اجتماعی ردعمل

کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمے، گرفتاری اور آئی جی پولیس کے ساتھ مبینہ غیر مناسب رویے کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہوچکا صوبائی حکومت نے اپنے آپ کو بے بس ظاہر کیا اور پولیس افسران نے اجتماعی اقدام کے طور پر فورس کے سربراہ کی بے عزتی پر چھٹیوں درخواستیں دے دیں۔ 

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے کورکمانڈر کراچی کو انکوائری کے احکامات جاری کردیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے آرمی چیف کی فون پر بات چیت کے بعد چیئرمین پی پی پی نے آئی جی سندھ سے ملاقات کرکے انہیں اور افسران کو چھٹی پر جانے کا فیصلہ مؤخر کرنے کی اپیل کرڈالی جو انہوں نے مان بھی لی۔

سرکاری افسران اور پولیس افسران کے غیرجانبدارانہ امور کی انجام دہی میں رکاوٹ کون لوگ ہیں۔ اس بارے میں کئی بار لکھا جاچکا ہے اور عدالتیں اپنی آبزرویشن دے چکی ہیں۔ سیاسی مداخلت، بااثر افراد کا دباؤ، کرپشن، طاقتور اور احتسابی اداروں کی مداخلت سمیت کئی معاملات سامنے بھی لائے گئے۔ سندھ میں پولیس افسران کا اجتماعی اور شدید ترین ری ایکشن 20 اکتوبر کو دکھائی دیا۔ 

یہ ردعمل آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رہ نما کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور اس پر اداروں اور حکومت کے رویے کے خلاف ایک بھرپور اجتماعی رد عمل تھا۔ اس معاملے کی نزاکت یہاں تک پہنچی کہ سندھ پولیس کے آئی جی سمیت درجنوں سینئرپولیس افسران نے ایک سے دو ماہ چھٹیوں کی درخواستیں دے دیں۔ 

ظاہری وجہ یہ تھی کہ فورس کمانڈر پر مبینہ طور پر دباؤ ڈال کر کام کرایا گیا اور ان کی تضحیک کی گئی۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر سندھ حکومت کا مؤقف اب تک واضح نہیں۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے انکوائری کی تکمیل تک اس معاملے پر بات نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

کیپٹن صفدر کی مزار قائدپر سیاسی نعرے بازی کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اور وفاقی وزیر نے مقدمہ درج کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور پولیس پر مسلسل ایف آئی آر کے اندراج پر زور دیتے رہے۔ مزار قائد کے تقدس اور بے حرمتی پر ایف آئی آر پر پولیس نے کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا۔ 

اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر محمد زبیر نے اپنے بیانات میں بتایا کہ وزیراعلی سندھ نے انہیں بتایا کہ کہا ان پر دباؤ تھا۔ حکومتی وزراء کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ مزار قائد پر جو بھی ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم گرفتار کرنے کا طرز عمل غلط ہے۔ 

معاملہ جو بھی ہوا ایک بات حوصلہ افزاء نظر آتی ہے کہ صوبہ سندھ میں پولیس افسران گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی مداخلت اور دباؤ کے خلاف سینہ سپر ہو رہے ہیں۔ سندھ کے دو سابقہ آئی جیز اے ڈی خواجہ اور کلیم امام نے پولیس افسران میں ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ گوکہ دونوں افسران کو سندھ حکومت کی جانب سے ڈکٹیشن نہ لینے پر ٹف ٹائم دیا گیا لیکن دونوں اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ 

فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ڈالی ہوئی رِیت پر پولیس افسران نے اس مرتبہ اجتماعی ردعمل دکھایا ہے۔ بہرحال میری نظر میں یہ رد عمل امید افزاء ہےکہ پولیس افسران کے اس عمل سے سرکاری اداروں کے افسران میں بھی حوصلہ پیدا ہوگا کہ وہ غیر قانونی کام کرنے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالنے اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کرسکیں گے۔ 

سرکاری مشنری کا میرٹ پر آزادانہ اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنا ایک عام شہری کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ سیاسی یا طاقتور حلقوں کی کسی بھی سول ادارے میں مداخلت ختم ہونے سے سب اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں جو مفاد عامہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔