24 اکتوبر ، 2020
حکومت اگر واقعی حکومت ہو تو اُس کی پہلی ترجیح ریاستی اداروں کو مضبوط بنانا، اُن کی قدر و منزلت میں اضافہ کروانا، عوام اور اُن کے مابین اعتماد کی فضا بحال کرنا اور اُن کے کردار کو آئین میں مقررکردہ رول کے اندر لانا ہوا کرتا ہے۔
اِسی طرح جینوئن حکومتیں ریاستی اداروں کو اپنے لیے ڈھال نہیں بناتیں بلکہ خود اُن کے لیے ڈھال بنتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اِس وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو ڈھال بننے کی بجائے ریاستی اداروں کو اپنے لیے ڈھال بنارہی ہے۔
وہ اداروں اور عوام کے نمائندوں (اپوزیشن) کے مابین رابطہ کار کا کردار ادا کرنے کی بجائے اُن کو لڑانے میں لگی ہوئی ہے، ریاست کے ادارے ملک بھر کے عوام کے ادارے ہوا کرتے ہیں، وہ سب کے لیے قابلِ احترام ہوتے ہیں اور ہر شہری اُن پر یکساں دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ تاریخ کی انوکھی حکومت آئی ہے جو اداروں کی آڑ لے کر باقی تمام پاکستانیوں کو اُن کا دشمن بنا رہی ہے۔
اِن کے کیسز کی مجبوری تھی، کوئی اور خوف تھا یا پھر اداروں سے تصادم نہیں چاہتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے متنازعہ ترین انتخابات کے باوجود سسٹم کو چلانے کی کوشش کی جبکہ اداروں کی بھی یہ کوشش رہی کہ اُن کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جائے لیکن عمران خان مفاہمت کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرتے رہے۔
پیپلز پارٹی تو انتخابات سے قبل بھی تابعدار تھی اور انتخابات کے بعد بھی صدارتی الیکشن وغیرہ میں تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) بھی شہباز شریف کے بیانیے کو اپنا کر شرافت کی سیاست کرنے لگی لیکن عمران خان نے پکڑ دھکڑ کو ترجیح دی۔
اِس سے اپوزیشن کو اشتعال دلانے کے ساتھ ساتھ معیشت کا بھی ستیاناس کیا اور فواد حسن فواد یا احد چیمہ جیسے افسران کا انجام دیکھ کر بیوروکریسی نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا، یوں معیشت تباہ ہونے لگی تو اداروں نے اُس کو مزید تباہی سے بچانے کی خاطر اور اِس سوچ کی خاطر کہ سونامی سرکار پوری توجہ گورننس پر دے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تعلقات بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ سب کچھ عمران خان کی بھلائی میں کیا جارہا تھا کیونکہ مقتدر ادارے اُن کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور اُن کی ناکامی کو اپنی ناکامی سمجھ رہے تھے، عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ میاں شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بنیں لیکن اُن کو دباؤ پر چیئرمین بنا دیا گیا۔
اِسی طرح پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن جب نیب کا کنٹرول، چیئرمین نیب سے متعلقہ مواد ہاتھ میں لینے کے بعد عمران خان کے پاس آگیا تو اُس کے ذریعے اُنہوں نے بےدریغ اپوزیشن رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع کرا دی۔
اب نیب کو بلیک میلنگ کے ذریعے چلانے میں عمران خان بھی حصہ دار بن گئے لیکن اپوزیشن کا یہ خیال رہا کہ نیب کو حسبِ سابق صرف ادارے ہی اُن کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان اپنے وزرا اور ترجمانوں کو بدتمیزی کے لیے ابھارتے رہے تاکہ اُن کی حکومت کی ناکامی کی طرف دھیان نہ جائے، اُن کے انتقام کا جذبہ تو ٹھنڈا ہوتا رہا لیکن اِس عمل سے معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، جی ڈی پی گروتھ کا زوال، مہنگائی اور بےروزگاری میں ہوشربا اضافے اور بدامنی کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا۔
دوسری طرف مودی نے کشمیر ہڑپ کر لیا اور حکومت پر کشمیر فروشی کا الزام لگنے لگا، اِدھر دوست ممالک کے ساتھ مسلسل سفارتی بلنڈرز کا ارتکاب ہونے لگا، ہر کسی کو محسوس ہونے لگا کہ تبدیلی تباہی میں بدل گئی۔
یہ سوچ عام ہو گئی کہ شاید تبدیلی لانے والے تبدیلی میں تبدیلی کا سوچ رہے ہیں، اب ایک اپروچ یہ ہو سکتی تھی کہ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بناتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے اپنی روایتی حکمتِ عملی کو اپنایا گیا کہ اپوزیشن اور ریاستی اداروں کو لڑایا جائے تاکہ اُن کے سوا کوئی آپشن ہی نہ رہے۔
پہلے وزیراعظم اور اُن کے قریب ترین سرکاری افسر نے جان بوجھ کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن کو متنازعہ بنایا، پھر سپریم کورٹ اور فوج کو لڑانے کی شعوری کوشش کی گئی اور جب معاملہ قانون سازی تک آیا تو یہ سوچا گیا کہ اِس معاملے پر فوج اور اپوزیشن دست و گریبان ہو جائیں گے۔
چھوٹی جماعتوں کے بر عکس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے خلافِ توقع اِس عمل کو ووٹ دے کر سپورٹ کیا، پھر حکومت کو یہ احساس ہونے لگا کہ اپوزیشن اور اداروں کے مابین کشیدگی کے خاتمے کا یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے۔
چنانچہ ایک وزیر کو کہا گیا کہ وہ بوٹ لے جاکر ٹی وی شو میں رکھ دیں تاکہ اپوزیشن کو اشتعال دلایا جائے، اِس کے بعد سے آج تک تمام وزیروں اور ترجمانوں کی ایک ہی ڈیوٹی ہے کہ وہ ریاستی اداروں اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے خلاف اشتعال دلائیں۔
دوسری طرف اپوزیشن کے خلاف قانونی اور نیب کی سطح پر اقدامات فروغ نسیم اور بیرسٹر شہزاد اکبر کے سپرد کیے گئے، یہ حکومت نے ایک اور چالاکی کی ہے کیونکہ اُن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ دونوں عمران خان کے نہیں کسی اور کے بندے ہیں، چنانچہ اُن کے اقدامات کا غصہ حکومت کی بجائے کسی اور جگہ نکلتا ہے۔
ریاستی اداروں اور اپوزیشن کی اِس لڑائی کو حکومتی ترجمان اپنے بیانات سے گرماتے اور عمران خان اُس سے لطف اٹھاتے ہیں، بدقسمتی سے اُن کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ جتنی یہ لڑائی گرم ہوگی، اُتنی اُن کی حکومت کا دوام مجبوری بنے گا لیکن افسوس یہ کہ اِس صورتِ حال کی وجہ سے ریاستی ادارے متنازعہ بنتے جارہے ہیں اور یہ مظہر ریاست کے لیے تباہ کن نتائج کا موجب بن سکتا ہے۔
خان صاحب کے سیاسی کزن نے میاں نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے حکومت گراؤ، ریاست بچاؤ کا نعرہ دیا تھا، آج بدقسمتی سے اِس ملک میں حکومت بچانے کے لیے ریاست کے اداروں کو متنازعہ بنا کر کمزور کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔
جب حکومتِ وقت کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ریاستی اداروں کی کمزوری اور عوام کے نمائندوں سے اُن کی لڑائی میں ہی اُس کی بقا ہے تو پھر اِس ریاست کا اللہ ہی حافظ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔