Time 27 اکتوبر ، 2020
بلاگ

نونی، انصافی اور حقّی

فوٹو: فائل 

نونی: 3کامیاب جلسوں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ ٹیمپو برقرار رہا تو جنوری تک حکومت رخصت ہو جائے گی۔

انصافی: یہ ناکام جلسے تھے، بھارت اور اسرائیل کی زبان بولی گئی، پارٹیوں کے کارکن آئے، عوام تو سرے سے اِن جلسوں میں آئے ہی نہیں۔

حقّی: تم دونوں جذباتی اور انتہا پسند ہو، جلسے کامیاب تھے اور حکومت بھی اُن سے حواس باختہ تو ہوئی ہے لیکن جلسوں سے حکومتیں گرتی نہیں مگر ہِل تو جاتی ہیں، کیپٹن صفدر کی گرفتاری بلاسوچے سمجھے کی گئی اور یوں یہ واقعہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک ایشو بن گیا۔

انصافی: (بات کاٹتے ہوئے) یہ سب ڈرامہ ہے، بلاول اور آئی جی سندھ ملے ہوئے ہیں، سندھ پولیس نے خود راضی خوشی کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا اور پھر اسے ایشو بنا دیا تاکہ جعلی ہیرو بن سکیں۔

نونی: سندھ پولیس کو سلام، سندھ پولیس نے ٹائیگر فورس بننے سے انکار کرکے اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا، یہ دراصل نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش تھی جسے پولیس کی مزاحمت نے ناکام بنا دیا۔

حقّی: سیاست کا مقابلہ سیاست سے کرنا چاہیے، سیاست کا مقابلہ انتظامی ہتھکنڈوں سے کیا جائے تو انتظامیہ ہارتی ہے اور سیاست جیت جاتی ہے، اِس بار بھی یہی ہوا، کراچی واقعہ میں سیاست جیتی اور انتقامی ہتھکنڈوں کو شکست ہوئی۔

انصافی: کیا قائداعظم کے مزار پر ہلڑبازی سیاست ہے؟ یہ تو بانیٔ پاکستان کی توہین تھی، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنا قانون کی بالادستی کے لیے ضروری تھا، اِس میں غلطی کیا تھی؟

نونی: آپ اُسے ائیرپورٹ پر گرفتار کر لیتے، رات کے اندھیرے میں کمرے کا دروازہ توڑ کر گرفتاری اور وہ بھی خاتون کے کمرے سے، یہ سراسر انتقامی کارروائی تھی۔

حقّی: حکومت نے اپوزیشن کا سیاسی مقابلہ کرنے کے لیے 5 رکنی وزارتی کمیٹی بنائی تھی، دو تین دن تو اُن کی گھن گرج سنائی دی مگر اب وہ پتلی گلی سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔

انصافی: حکومت اور ریاست ایک صفحے پر ہیں وزراء ہوں یا ریاست کے اہم اہل کار وہ نونی بیانیےکو ملک دشمن گردانتے ہیں ان کو کسی صورت این آر او نہیں ملے گا۔

نونی: ہم ہی تو اصلی محبت وطن ہیں، ہم نے پی ڈی ایم کے اسٹیج پر دیو بندی، بریلوی، قوم پرست اور قومی جماعتوں سب کو اکٹھا کر دیا ہے فرقہ وارانہ اور علاقائی ولسانی نفرتوں کے درمیان پی ڈی ایم کے جلسے اس ملک کے لیے امید کی کرن ہیں۔

حقّی: 5 رکنی حکومتی وزارتی کمیٹی غیر متحرک ہونے کی وجہ سے سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے جب راستے بند ہوں توحبس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔

نونی: حکومت سے جب بھی مذاکرات ہوئے ہیں بعد میں انہوں نے ہمارا مذاق اڑایا ہے، مذاکرات کی میز پر ہونے والی گفتگو کا غلط استعمال کرکے ہمیں نیچے لگانے کی کوشش کی ہے ایسے میں ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

انصافی: یہ مذاکرات ملکی مفاد یا قانون سازی کے لیے نہیں کرتے بلکہ اپنے لیڈروں اور اپنے لیے این آر او لینے کے لیے کرتے ہیں، تحریک انصاف ملک کے حق میں اور ملکی مفاد کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے مگر کرپشن کے مقدمات میں ریلیف دینے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔

حقّی: تحریک انصاف کو اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی بھی ضرورت ہے 5 رکنی وزارتی کمیٹی بے بس ہو کر دلبرداشتہ ہو چکی ہے، ہائی پاور وزارتی کمیٹی کا نہ وزیراعظم سیکرٹریٹ پر بس چلتا ہے نہ شہزاد اکبر کے احتساب ایجنڈے پر اور نہ ہی وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کے مینڈیٹ پر۔اسی لیے تو کمیٹی نے بے بسی میں نسبتاً خاموشی کا روزہ رکھ لیا ہے ۔

نونی: برسراقتدار جماعت میں کوئی مشورہ وغیرہ نہیں چلتا فاشسٹ طریقے سے حکم چلتا ہے ریاستی ادارے انصافی وزیر اور مشیر سب پنجاب کی گورننس کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں مگر بڑے خان صاحب کچھ بھی سننے کو تیار نہیں، ابھی چند دن پہلے انہوں نے وفاقی وزراء کے سامنے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی خوبیوں پر لیکچر دیا ہے اس وقت تو سب وزراء خاموش رہے مگر اجلاس کے بعد باہر جاکر خوب قہقہے لگائے ۔

انصافی: یہ سب جھوٹ ہے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بہت تجربہ کار ہوگئے ہیں اور بڑےخان صاحب کا ان کو مکمل اعتماد حاصل ہے خان صاحب پر بڑا دباؤ ڈالا گیا مگر خان صاحب نے بزدار کی حمایت نہیں چھوڑی نتیجتاً اب ریاستی ادارے بھی عثمان بزدار کے خلاف بات کرنے سے کترانے لگے ہیں بلکہ اب تو سب نے مان ہی لیا ہے کہ عثمان بزدار ہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر برداشت کرنا ہو گا۔

حقّی: بڑے خان صاحب کی فی الحال چل رہی ہے واقعی ادارے اب غیر ضروری مداخلت نہیں کرتے صرف اس معاملے پر ہی مشورہ دیتے ہیں، جہاں بہت زیادہ خرابی ہو رہی ہو لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی مہنگائی کم نہ ہوئی اور گورننس ٹھیک نہ ہوئی تو وزیر اعظم کو جو فری ہینڈ ملا ہوا ہے، وہ رک جائے گا۔

انصافی: (بات کاٹ کر) بڑے خان کے ساتھ ایسی جرات کوئی نہیں کر سکتا وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آیا ہے، ایماندار ہے، کوئی ادارہ اسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، وقت آنے دو بڑا خان سب سے بڑا مزاحمت کار ہے، اگر اُسے مجبور کیا گیا تو وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دے گا اور اگر دھاندلی سے کسی اور کو لانے کی کوشش کی گئی تو خان پہلے ہی دن سے سڑکوں پر نکل آئے گا، حکومت کو نہیں چلنے دے گا۔

نونی: بڑے خان کا بیٹری سیل نکال لیا جائے تو خان ٹھنڈا ہو کر بیٹھ جائے گا، خان کے پیچھے طاقت صرف ریاستی اداروں کی ہے، یہ طاقت نکل جائے تو خان کی حکومت صرف ایک انگلی لگانے سے ہی گر جائے گی اس کی دیواروں کو دھکا دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

حقّی: کسی بھی حکومت کو نکالنا آسان نہیں ہوتا ریاستی ادارے عوام اور پھر مزاحمت کا ابال یہ سب بھی ہو تو حکومت کو گرانے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں حکومت کے پاس بھی بہت سے وسائل اور حربے ہوتے ہیں۔

انصافی: ہم اتنی جلدی جانے والے نہیں ہم اگلا الیکشن بھی جیتیں گے اور اس ملک کو ایک نئی پٹری پر ڈال کر ہی جائیں گے۔

نونی: آپ کا تو سینٹ الیکشن تک برقرار رہنا مشکل ہے آپ اندرونی محاذ پر تن تنہا ہیں اور بیرونی محاذ پر آئسولیٹ ہو چکے ہیں معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، مہنگائی عروج پر ہے، عوام آپ سے تنگ ہیں اس صورتحال میں آپ کی حکومت کا چلنا محال ہے۔

حقّی: اصولی طور پر تحریک انصاف کو پانچ سال کا مینڈیٹ حاصل ہے جمہوری نقطہ نظر سے اسے پورے پانچ سال ملنے چاہئیں۔

نونی: چھوڑیں جی چھوڑیں یہ کونسے جمہوری طریقے سے آئے ہیں سلیکٹڈ ہیں انہیں فوراً جانا چاہیے۔

انصافی: ہماری اسمبلیوں میں اکثریت ہے ہم ریاست کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں ہمیں بھیجنا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔

حقّی: چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے سانحات کو جنم دیتے ہیں اپوزیشن کی تحریک پر اگر حواس باختگی جاری رہی تو حکومت اپنی قبر خود کھو دےگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔