15 نومبر ، 2020
اسلام آباد: کیا جنرل (ر) راحیل شریف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع مانگی تھی ؟
مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ ہاں مانگی تھی لیکن سابق آرمی چیف اس سے انکاری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہی۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ نواز شریف کو سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں عدم توسیع پر نشانہ بنایا گیا ۔
جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس وقت دوبارہ سامنے آیا جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ نواز شریف نے ان سے کہا تھا کہ راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بار ہا ان سے رابطہ کیا تھا اور نواز شریف نے توسیع دینے سے انکار کر دیا ۔
ان دنوں کیا کچھ چل رہا تھا دی نیوز اس کی رپورٹنگ کر تا رہا ہے لیکن اپنی حکومت جا نے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے چند سرکردہ رہنماؤں نے ڈان لیکس اور پاناما پیپرز جیسے اسکینڈلز کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ دیئے جانے سے جوڑ دیا۔
گزشتہ سال اپنے ایک انٹرویو میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع نہ دیئے جا نے پر ان سمیت پارٹی مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا گیا ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ جا کر جنرل راحیل شریف کو بتایا کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جا رہی۔
اس انکار کے فوری بعد جب ڈان لیکس اور پاناما پیپرز لیکس کے اسکینڈلز سامنے آئے تو انہیں شاطرانہ طریقے سے ہمارے خلاف استعمال کیا گیا ۔ جب دی نیوز نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد موقف جا ننے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے ذریعہ جنرل راحیل شریف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم دفتر میں ملاقات کے بعد وہ جانے لگے تو شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان تک پہنچے۔
راحیل شریف نے امجد شعیب کو بتایا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے کیونکہ وہ کئی ماہ قبل ہی اپنی تین سالہ مدت مکمل کر نے کے بعد مزید توسیع نہ چاہنے کا اعلان کر چکے تھے۔
راحیل شریف کے مطابق جیسا کہ جنرل امجد شعیب نے بیان کیا کہ مسلم لیگی رہنماؤں کا اس بات پر زور تھا چونکہ ملک اب بھی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے، جنرل راحیل شریف نے کراچی کا امن بحال کیا لہٰذا حکومت چاہتی تھی کہ وہ خدمات جاری رکھیں۔
امجد شعیب کے مطابق جب راحیل شریف نے دوبارہ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے کی پیشکش کی گئی جس پر انہوں نے پھر سے انکار کیا اور وہ کوئی ایسا سربراہی کا علامتی عہدہ نہیں چاہتے تھے جہاں ان کے لئے کر نے کو کچھ نہ ہو ۔ تب دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے جنرل راحیل شریف سے کہا کہ حکومت فیلڈ مارشل کے عہدے کو با اختیار بنانے پر غور کر رہی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے امجد شعیب کو بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے طور پر کسی سے اس معاملے پر بات نہیں کی۔ 11ستمبر 2016ء کو دی نیوز نے توسیع کے معاملے پر وزیر اعظم پر دباؤ کے عنوان سے خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے وزیر اعظم پر مخصوص حلقوں کی جا نب سے دباؤ ہے۔
معتبر ذرائع کے حوالے سے دی نیوز نے لکھا کہ وزیر اعظم کا آرمی چیف کو توسیع دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ذریعہ کے استفسار پر یہی بتایا گیا کہ یہ فیصلہ ہے۔ گو کہ آرمی چیف نے خود ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، اس کے باوجود وزیر اعظم پر جنرل راحیل شریف کو پیشکش کے لئے دباؤ تھا۔
ذریعہ نے جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنائے جانے کی قیاس آرائی کو بھی مسترد کر دیا۔ جب پوچھا گیا کہ وزیر اعظم پر کون دباؤ ڈال رہا تھا تو ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ با اثر رہنماؤں نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بار ہا کہا لیکن ساتھ ہی کچھ دیگر بارسوخ لوگ بھی دباؤ ڈال رہے تھے۔
اخبار میں یہ بھی شائع ہوا کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کوشاں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک با خبر رہنما کے مطابق شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے ملنے لندن بھی گئے جہاں وہ اپنے قلب کی جراحت کے لئے گئے ہو ئے تھے تاکہ راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے دباؤ ڈالیں ورنہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں مارشل لاء نہ لگ جائے، اس کے باوجود نواز شریف نے مدت ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا۔
دریں اثناء نواز شریف کے ایک قریبی معاون نے اس نمائندے کو بتایا کہ راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے جبکہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر چاہتے تھے کہ راحیل شریف کو ایک سال کے لئے مدت ملازمت میں توسیع ملے۔
اس صورت وہ ایک سال بعد آرمی چیف بنانے کے لئے غور کئے جانے کے لئے سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل ہو جاتے۔