19 نومبر ، 2020
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 44 دن تک جاری رہنے والی جنگ آذربائیجان کی فتح کے ساتھ ختم ہو گئی اور آرمینیا کی افواج مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئیں۔
جنوبی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو کاراباخ کا علاقہ باضابطہ طور پر جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن آرمینیا بھی اس علاقے پر دعویٰ کرتا ہے اور 90 کی دہائی سے اس پر قابض ہے۔
آرمینیا کا مؤقف ہے کہ نگورنو کاراباخ آرمینیائی نسل کا باشندوں کا مسکن اور صدیوں سے آرمینیا کا حصہ ہے لیکن عالمی سطح پر اسے کبھی بھی آرمینیا کا حصہ نہیں مانا گیا۔
30 برسوں سے جاری اس تنازع پر دونوں ملکوں کے درمیان کئی خونریز تصادم ہوچکے اور سیکڑوں انسان ہلاک ہوئے جب کہ آرمینیائی قبضے کے بعد نگورنو کاراباخ سے لاکھوں آذری شہری نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔
حالیہ جنگ سے قبل آذربائیجان کے معروف فلسفی اور سائنسدان یونس ڈارسٹ اپنی پیشگوئیوں میں اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ یہ جنگ شروع ہو کر مختصر وقت میں ختم ہوگی اور روس مداخلت کرکے اس میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
یونس نے کہا تھا کہ آذربائیجان مقبوضہ علاقوں کو فتح کرے گا اور آرمینیا اس میں نقصان اٹھائے گا۔ ایک تحریر میں یونس نے لکھا کہ یہ جنگ ہے اور ہمیں متاثرین کے لیے تیار رہنا چاہیے، 1990 کی دہائی میں ہم ہزاروں جانیں گنوا بیٹھے اور 16،000 مربع کلومیٹر علاقہ بھی کھو دیا تھا۔ اگر ہم دشمن کی مزاحمت کو توڑ دیتے ہیں اور خاص طور پر فزولی اور اگدارا کو حاصل کرلیتے ہیں تو اس سے آرمینیا عسکری اور اسٹریٹیجک اور نفسیاتی طور پر ٹوٹ جائے گا۔
یونس کے مطابق ان دو اضلاع پر قبضہ کرنا باقی تمام علاقوں پر قبضہ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل اور زیادہ اہم ہوگا۔ لیکن اگر اس پر قبضہ کرلیا گیا تو کام بہت آسان ہوجائے گا اور جنگ کی تقدیر کا فیصلہ قریب ہی ہوجائے گا۔
یونس ڈارسٹ کی پیشگوئیاں کافی حد تک درست ثابت ہوئیں۔ ایک معاہدہ طے پایا جس میں روس ثالث کا کردار ادا کررہا ہے۔
آذر بائیجان میں کئی کتابوں کی مصنف خیالہ مراد نے جیو نیوز سے بات چیت میں بتایا کہ آرمینیا سے 44 روز تک جنگ کے بعدآذربائیجان نے فتح کا اعلان کیا ہے، اس جنگ کے دوران انٹرنیٹ سروس معطل رہی لیکن ٹی وی اور ریڈیو پر نشریات جاری رہیں تاہم اب جنگ بندی کے بعد انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بحال کردی گئی ہے۔
خیالہ مراد کہتی ہیں کہ تاریخی طور پر نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے اور آذری عوام اس کی واپسی کے لیے اپنی افواج کے ساتھ قدم بہ قدم کھڑے ہیں۔
خیالہ کے مطابق ان کے صدر نے عوام سے کوئی بات نہیں چھپائی اور محاذ جنگ پر ہرطرح سے عوام کو حقیقت سے آگاہ رکھا، اب ان کے بہن بھائی برسوں پہلے اپنے چھینے ہوئے علاقے میں واپس جاکر بسنے کے لیے بے چین ہیں۔
خیالہ مراد کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی ضلع لاچین میں بھی واپسی ہوئی جسے کاراباغ کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے، اب اس پورے علاقے میں آذربائیجانی پرچم گھروں پر لہرارہے ہیں کاراباغ آذربائیجانیوں کا انتظارکررہاہے۔ آرمینیائی لوگوں نے لاچین، کالبجار اور اغدام سے جاتے ہوئے ان تمام گھروں کو آگ لگا دی تھی جو آرمینیا کے قبضے سے پہلے آذربائیجان باشندوں کے تھے۔
روس اور ترکی کی ثالثی میں کیے گئے معاہدے کے مطابق جو علاقے آذربائیجان نے میدان جنگ میں فتح کیے ہیں ان پر آذربائیجان کا کنٹرول ہو گا اور نگورنو کاراباخ کے دیگر علاقوں سے آرمینیا آئندہ چند ہفتوں میں اپنی فوجیں نکال کر ان کا کنٹرول آذربائیجان کے حوالے کر دے گا۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق روسی صدر ولاد میر پیوٹن نے دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر بطور ثالث اہم کردار ادا کیا۔
معاہدے کے بعد آرمینیا کی جانب سے کئی علاقے خالی تو کیے جارہےہیں لیکن زمین چھوڑنے والے اپنی املاک کو آگ لگاکر تباہ بھی کر رہے ہیں۔