Time 24 نومبر ، 2020
بلاگ

فرض کریں...

فوٹو: فائل

آئیے فرض کریں کہ ساری اپوزیشن لیڈر شپ کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے، کرپشن مقدمات میں فیصلے اُن سب کے خلاف ہو جاتے ہیں، ملک میں اپوزیشن کا کوئی بڑا لیڈر نہ جلسے کرتا ہے نہ پریس کانفرنس، ہر طرف صرف حکومت ہی حکومت نظر آتی ہے۔

ن لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام سمیت 11جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے حق میں ایک بھی آواز نہیں اٹھتی، جو تحریک انصاف چاہتی ہے وہی کرتی ہے، ملک میں حزبِ مخالف ختم ہو جاتی ہے۔

فرض کریں ایسا ہو تو کیا ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا مہنگائی، افراطِ زر، بجٹ کا خسارہ، سرکلر ڈیٹ اور قرضوں پر سود کا سلسلہ ختم ہو جائے گا؟ کوئی بھی باہوش شخص یہ اقرار نہیں کرے گا کہ اپوزیشن ہی کی وجہ سے سارے مسائل ہیں، مسائل تو پہلے سے موجود ہیں اور جب تک اُنہیں حل نہیں کیا جاتا یہ موجود رہیں گے۔

آئیے باقی دنیا کا جائزہ لے لیں، بھارت میں اپوزیشن ہے، روس جیسے آمرانہ ملک میں بھی اپوزیشن کی آواز موجود ہے، جمہوری ممالک میں جہاں حکومت اپنا کام کرتی نظر آتی ہے وہاں اپوزیشن بھی پورے زور و شور سے کارفرما نظر آتی ہے۔

حکومتیں، اپوزیشن کی حکومت مخالف سرگرمیوں کو برداشت کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسی گورننس کرتی ہیں کہ عوامی مسائل حل ہوں۔ عوامی فلاح کے نئے نئے منصوبے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت نے ہر مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے اُس کا طعنہ اپوزیشن کو دینے کا وطیرہ اپنا لیا ہے، اِس سے وقت تو ٹل جاتا ہے مگر مسائل کے حل کی طرف پیش رفت نہیں ہو پاتی۔

آئیے اِس حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں اور یہ بھی دیکھیں کہ اپوزیشن کہاں تک اِس حکومت کی پرفارمنس میں رکاوٹ بنی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی تقریروں کے علاوہ نہ تو حکومت کی قانون سازی روک سکی ہے، عدم اعتماد لے کر آئی تو سینٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن ہار گئی اور حکومت جیت گئی، اِس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن سوائے گیدڑ بھبکیوں کے حکومت کا راستہ روکنے میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔

اگر یہی سچ ہے تو پھر حکومت کیسے اپوزیشن کو اپنی کارکردگی نہ دکھانے اور مسائل کے حل نہ ہونے کا بہانہ بنا کر دکھا سکتی ہے؟

ماہِ دسمبر اور جنوری کو اپوزیشن نے اپنی احتجاجی تحریک کے فیصلہ کن اقدامات کے لیے طے کر رکھا ہے، اِنہی مہینوں میں لاہور کا جلسہ ہوگا اور پھر معاملہ لانگ مارچ کی طرف جائے گا۔

حکومت کی طرف سے ابھی سوائے پکڑ دھکڑ کے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔ توقع یہ ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے ہر صورت میں مذاکرات ہوں گے۔

بہتر تو تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کسی دبائو کے بغیر مذاکرات کرتے مگر جب حکومت پر لانگ مارچ کا دبائو ہوگا تو اُسے لازماً مذاکرات کے لیے تیار ہونا ہوگا۔

ماضی کے تجربوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں لانگ مارچ کو روکتی نہیں بلکہ اسلام آباد جانے دیتی ہیں اور پھر سارا دبائو اسلام آباد اور راولپنڈی کی اسٹیبلشمنٹ پر آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اِس مجمع کو گھر واپس بھیجے۔

اِس لیے اِس بات کا قوی امکان ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے اسٹیبلشمنٹ فریقین یعنی حکومت اور اپوزیشن کو مجبور کرے کہ وہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے حوالے سے مذاکرات کریں کیونکہ اگر لانگ مارچ واقعی ہوگا تو پھر سارا دبائو حکومت پر نہیں بلکہ تیسرے فریق پر ہوگا اور تیسرا فریق نہیں چاہے گا کہ مولانا خادم رضوی کے مذہبی دھرنوں کے بعد اب سیاسی دھرنوں کو ختم کرنے کے لیے بھی وہی مذاکرات کریں۔

تحریک انصاف کے اکثریتی حامیوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا مطلب اپوزیشن کے لیے این آر او کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بالکل غلط خیال ہے، مذاکرات لین دین اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تو مذاکرات کا پہلا نکتہ حکومت کی پانچ سالہ مدت پورا کرنا ہوگا، گویا اپوزیشن کو مذاکرات کے پہلے مرحلے میں ہی یہ ماننا پڑے گا کہ وہ باقی 3سال تحریک انصاف کی حکومت کو چلنے دیں گے۔

دوسری طرف حکومت کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے قانون سازی پر ایسی پیشکش کرنا پڑے گی جس سے اپوزیشن کو یہ احساس دلایا جائے کہ اُن کا بھی نظام میں حصہ ہے اور اگلے انتخابات میں اُنہیں منصفانہ طور پر حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔

مہنگائی، بےروزگاری اور افراطِ زر نے لوگوں کا برا حال کر رکھا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کے جذبات ابھی ابال کی منزل تک نہیں پہنچے۔ عام طور پر کوئی غیرمتوقع واقعہ یا حادثہ لوگوں کو جذبات کو مہمیز دے کر بھڑکا دیتا ہے۔ حکومتوں کو اِس منزل سے خوفزدہ رہنا چاہئے کیونکہ جب لوگوں کے جذبات ابال کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر اُنہیں ٹھنڈا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

عمومی طور پر پھر یہ ابال حکومت کو اُتار کر ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اُن کے خلاف مڈل کلاس کے جذبات تو بھرے پڑے ہیں لیکن لوئر کلاس اُن کے اتنے خلاف نہیں۔

عام طور پر تحریک کا آغاز لوئر اور پسے ہوئے طبقات کی طرف سے ہوتا ہے اور بعد میں مڈل کلاس اِس میں شامل ہو جاتی ہے۔ پسے ہوئے وہ طبقات جو پیپلز پارٹی کے پنجاب سے غائب ہونے کے بعد سیاسی طور پر بےآسرا ہو گئے تھے اُنہیں کپتان کی غریبوں سے ہمدردی کی آواز پسند آئی ہے اور یہی اِس وقت تحریک انصاف کے لیے واحد سیاسی مثبت اشارہ ہے۔

عمران خان کے لیے مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کی جو ہمدردی تھی اُس میں کمی آئی ہے مگر غریب طبقات میں اُن کی اپیل بڑھی ہے۔ بزنس مڈل کلاس میں عمران خان ابھی بھی غیرمقبول ہیں۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کا المیہ یہ ہے کہ اُس کا حامی ووٹر ووٹ تو ن لیگ کو دے گا مگر وہ پارٹی کے لیے بازار میں نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ہلکی آواز میں ن لیگی دور کی تعریف تو کرے گا لیکن عمران خان دور کے خاتمے کے لیے اپنی دکان ایک دن کے لیے بند کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔

مسلم لیگ ن کا ووٹر یہ چاہتا ہے کہ کاش کوئی ایسا راستہ نکل آئے جس سے اُس کی لیڈر شپ کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ صلح ہو جائے تاکہ ن لیگ دوبارہ اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہو جائے مگر دوسری طرف اُس ووٹر کا تضاد یہ بھی ہے کہ اُنہیں مزاحمتی بیانیے کے باوجود پسند نواز شریف ہے۔

وہ مفاہمتی بیانیے کے شہباز شریف سے ہمدردی تو رکھتا ہے لیکن نواز شریف کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ فرض کریں یہ سب کچھ ایسا ہی رہے تو پھر حالات تو نہیں سدھریں گے، خراب ہی رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔