25 نومبر ، 2020
آخر ’’میثاق جمہوریت‘‘ میں ایسی کیا کمی رہ گئی تھی کہ ’’میثاقِ پاکستان‘‘ کی ضرورت محسوس کی گئی؟ مسئلہ عمل درآمد کا ہے ورنہ تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1973کے آئین سے زیادہ موثر اور متفقہ دستاویز اور کیا ہو سکتی ہے؟
یہ ریاست کے چاروں ستونوں کے دائرہ اختیار کے بارے میں واضح ہے اور اس کی خلاف ورزی یا آئین کو معطل یا توڑنے پر کیا سزا ہوسکتی ہے، اس کا جواب بھی موجود ہے؟ یہ کسی بھی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔
سوال بس یہ ہے کہ بات ہو تو کس سے؟ سب اپنا اپنا کام کریں تو بات کی ضرورت ہی نہ ہو۔
1973کے آئین کی خلاف ورزی بدقسمتی سے خود اس کے خالق سے شروع ہوئی اور پھر یہ سلسلہ رک نہ سکا۔ آمریتوں نے اس کا حلیہ مزید بگاڑ دیا اور ہماری عدلیہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ہر آمر کو تحفظ دیتی رہی۔
لہٰذا اگر کسی ’’میثاق‘‘ کی اس وقت ضرورت ہے تو ’’میثاق ریاست‘‘ کی، جس کی بنیاد سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر مضبوط جمہوری روایت پر رکھنی ہے۔ اس وقت صورت حال اس کے برعکس ہے۔
سیاست میں اجارہ داری کا تصور ہی جمہوریت کی نفی ہے اور شاید اسی وجہ سے ان اداروں کو مداخلت کا موقع ملا وگرنہ اسلامی جمہوری اتحاد یا کسی اور کو زور زبردستی سے سیاست میں لانے کی ضرورت نہ پڑتی یا ہمت ہی نہ ہوتی۔
اب بھی ہم کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اب بھی ہم ’’ڈائیلاگ‘‘ انہی سے کرنا چاہتے ہیں جن کے بارے میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ اور ’’میثاق پاکستان‘‘ میں کہا گیا ہے کہ ان کا سیاست میں کوئی کردارنہیں مگر ہمارے سیاسی قائدین خود ان کو راستہ دیتے ہیں اور ’’ڈائیلاگ‘‘ بھی انہی سے کرنا چاہتے ہیں۔
’’سویلین بالادستی‘‘ کی بنیاد سویلینز کے درمیان مذاکرات سے ہونی چاہئے جس کے لئے سب سے مضبوط فورم پارلیمنٹ ہے جس کا حصہ حکومت بھی ہے اور حزب اختلاف بھی۔
مذاکرات حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے چاہئیں، چاہے آپ کو کوئی وزیر اعظم پسند ہو یا نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے کہ ہمیں یاد نہ رہے، سبق بہرحال ہم کم ہی سیکھتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ریاستی اداروں نے بھی طے کیا ہوا ہے کہ وہ ’’مداخلت‘‘ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے لہٰذا تنقید صرف ان کے سیاسی کردار پر ہی ہوتی ہے جو کبھی تلخ ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے بیشتر انتخابات میں ’’سیاسی مداخلت‘‘ ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہورہی ہے۔ کسی بھی ’’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کی بنیاد آئین پاکستان ہے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 2006میں تسلیم کیا کہ وہ 90کی سیاست میں ریاستی سازشوں کا حصہ رہیں اور طے کیا کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گی۔
’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی بنیاد اسی بات پر رکھی گئی۔ یہ بھی طے ہوا کہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو باہمی مشاورت سے بات کی جائے گی۔ اس ’’میثاق‘‘ پر دستخط کی سیاہی ابھی سوکھی نہیں تھی کہ جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات کا آغاز کردیا گیا اور وہ بھی ایسے موقع پر جب پاکستان میں آزاد عدلیہ کی تحریک چل رہی تھی اور مشرف کمزور نظر آرہے تھے۔ ایک بار پھر ہماری سیاسی قیادت نے بڑی سیاسی غلطی کردی۔
ججز کی بحالی پر ان دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے دستخط کئے اور مری میں اعلان کیا مگر پھر 2008تک کیا ہوا، جو کام وہ خود کرسکتے تھے وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کو دعوت دے کر اور ان کے ذریعے حل کروایا گیا۔2013سے 2014کے درمیان کیا ہوا۔
پہلی بار پوری پارلیمنٹ ایک ’’منتخب حکومت‘‘ کے پیچھے کھڑی تھی مگر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پھر بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے درخواست کی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے بات کریں۔
2018کے الیکشن ہوئے تو نواز شریف پہلے ہی نااہل ہوچکے تھے مگر ان کی جماعت سمیت سب جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت ’’بنوائی‘‘ گئی مگر پارلیمنٹ کا حلف تو سب نے لیا، انہوں نے بھی جو پہلے دن سے الیکشن میں دھاندلی کا شور کر رہے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں اگر کوئی ’’ڈائیلاگ‘‘ ہوتا ہے تو اس کی بنیاد کیا ہوگی؟
(1) اگر 2018کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو کیا 2014کی طرح کسی عدالتی کمیشن کی ضرورت ہے۔
یہ ثابت تو کرنا پڑے گا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ (2) مذاکرات حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہونے چاہئیں جس میں ثالثی کا کردار سپریم کورٹ بار اور سول سوسائٹی کے لوگ ادا کرسکتے ہیں۔ (3) کسی بھی حکومت کو گھر بھیجنے کا طریقہ آئین میں درج ہے۔
ریاستی اداروں کی وفاداری منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے مگر اس کے لئے اتحادیوں کو زور زبردستی کے ساتھ کسی کے ساتھ جوڑے رکھنا ان کا کام نہیں ہے۔ (4) الیکشن ریفارمز کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں اس سلسلے میں فوری مذاکرات کا آغاز کرسکتی ہیں۔ (5) تمام سیاسی جماعتوں کو بشمول حکومتی اتحادیوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ اپنے اندر جمہوریت کیسے لائی جائے۔
جماعتوں میں خود احتسابی کا مربوط نظام آجائے تو شاید نیب کی ضرورت نہ ہو مگر اس کے لئے ’’اخلاقیات‘‘ کا اعلیٰ معیار قائم کرنا ہوگا۔
شاید کچھ جماعتوں کے سربراہوں کو گھر جانا پڑ جائے۔ (6) ریاستی ادارے قانون سے بالاتر نہیں۔ جو قانون حکمرانوں پر لاگو ہوتا ہے وہ اِن کے ماتحت اداروں پر کیوں نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ریاست کے چاروں ستونوں کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے۔
رہی بات کسی بھی ’’میثاق‘‘ پر عمل درآمد کی تو اس کی ابتدا خود حزب اختلاف کو سندھ سے کرنی چاہئے۔
18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح تک جانے دیں، بلدیاتی اداروں کے ذریعے فوری طور پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ قائد حزب اختلاف کو بنائیں، صوبائی مالیاتی کمیشن کا اعلان کریں اور کچھ نہیں کرسکتے تو طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کریں۔ ٹریڈ یونین بحال کریں۔
یہ سب سیاسی نرسریاں ہوں گی تو سیاست آگے بڑھے گی ورنہ تو صرف اجارہ داری کے ذریعے نظام آگے بڑھے گا اور جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ اسی لئے ایک مربوط’’میثاق سیاست‘‘ کی ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔