قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ چارٹر فلائٹ سے کیوں نہیں بھیجا گیا؟

— فوٹو بشکریہ پی سی بی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے 54 ارکان کمرشل فلائٹس کے ذریعے 23 نومبر کو براستہ دبئی سے آکلینڈ کے لیے روانہ ہوئے۔

لیکن زیادہ ماضی بعید میں نہیں اسی سال جون کی باتیں کریں تو قومی ٹیم کے اراکین کورونا وبا کی صورتحال میں ہی انگلینڈ خصوصی طیارے سے گئے اور اس وقت ان کے ساتھ چئیرمین پی سی بی احسان مانی بھی تھے۔

تاہم نیوزی لینڈ جاتے وقت پاکستان ٹیم کے لیے چارٹر فلائٹ کی سہولت دستیاب نہ تھی۔ نیوزی لینڈ کا شمار کورونا فری ممالک میں کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے وہاں سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ 

دورہ انگلینڈ کی نسبت نیوزی لینڈ روانگی سے قبل کوویڈ ٹیسٹ یا بخار کی صورت میں کھلاڑی کو دورے کی اجازت نہیں ہےاور اسی فخر زمان اس کا شکار ہوئے کیونکہ ان کا کوویڈ ٹیسٹ تو منفی آیا مگر بخار کے سبب وہ نیوزی لینڈ نہ جا سکے۔

دبئی سے آکلینڈ کی فلائٹ کے دوران اسسٹنٹ کوچ کو گلے کی خراش کے باعث فی الحال آکلینڈ میں ہی روک لیا گیا اور وہ ٹیم کے دیگر اراکین کے ہمراہ کرائسٹ چرچ روانہ نہیں ہوئے۔ آکلینڈ سے کرائسٹ چرچ کی فلائٹ میں وزارت صحت کے اراکین نے بھی سفر کیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نیوزی لینڈ کے کورونا کے حوالے سے قوانین اتنے سخت ہیں تو پھر قومی ٹیم کے لیے چارٹر فلائٹ کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ 

دوسری جانب کرائسٹ چرچ پہنچے کے بعد کھلاڑیوں کو ہوٹل کے کمروں تک تین دن کے لیے محدود رہنے کو کہا گیا۔ سختی کا عالم یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو کمروں کے باہر کھانا رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کھانے کو اٹھانے کے لیے بھی کھلاڑیوں کو ماسک لگانے کی ہدایات ہیں۔ 

بناء ماسک کھانا دروازے سے اٹھانے والے کی مینجمنٹ سے شکایت کے جاتی ہے کہ اس نے کورونا قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ 

نیوزی لینڈ پہنچنے والے اسکواڈ کو 14،14 کے  4 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ابھی پاکستان ٹیم دو ہفتے کرائسٹ چرچ میں قرنطینہ میں رہے گی۔

 تاہم 6 کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پاکستان ٹیم کی اب مزید کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور کورونا قوانین کے حوالے سے مینجمنٹ کو سختی سے نیوزی لینڈ وزارت صحت کی جانب سے پیغام دیا گیا ہے کہ کھلاڑیوں سے اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔

مزید خبریں :