پاکستان
Time 04 جنوری ، 2021

قاضی صاحب اور مولانا صاحب

فوٹو: فائل

بُرا نہ منائیے گا۔ کچھ تاریخی حقائق یاد کرانے کی گستاخی کر رہا ہوں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن آج کل کوئی نئی باتیں تو نہیں کر رہے۔

اسلام آباد کی طرف جو لانگ مارچ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 1996میں کیا تھا ویسا ہی لانگ مارچ مولانا فضل الرحمٰن 2021میں پھر سے کرنا چاہتے ہیں۔ جن اسمبلیوں سے قاضی حسین احمد 2007میں استعفے دینا چاہتے تھے اُنہی اسمبلیوں کو مولانا فضل الرحمٰن 2021میں خالی کرنا چاہتے ہیں۔

راولپنڈی والوں کے بارے میں جو سخت لب و لہجہ قاضی حسین احمد نے 2008میں اختیار کیا مولانا صاحب دھیرے دھیرے اُسی لب و لہجے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی طرف سے مولانا فضل الرحمٰن پر ایسے غصہ دکھایا جا رہا ہے جیسا کہ کوئی پہلی دفعہ اسمبلیوں سے استعفوں اور اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

آج کل جب میں مولانا فضل الرحمٰن کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے قاضی حسین احمد یاد آ جاتے ہیں۔ قاضی صاحب بھی 2007میں اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتے تھے لیکن اُس وقت مولانا صاحب کا خیال تھا کہ استعفے پارٹی قیادت کو جمع کرائے جائیں۔ اسپیکر کو نہ دیے جائیں۔

قاضی صاحب متحدہ مجلس عمل کے صدر اور مولانا صاحب سیکرٹری جنرل تھے۔ پھر یہ ہوا کہ 24؍جولائی 2007کو قاضی حسین احمد نے اپنا استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا اور مولانا صاحب نے قاضی حسین احمد کے اِس قدم کو ایم ایم اے کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دیا۔

اِس اختلافِ رائے کے باوجود قاضی صاحب اور مولانا صاحب کے درمیان احترام کا رشتہ برقرار رہا۔ اِن دونوں نے ایک بہت مشکل وقت میں عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کی اور ردِعمل میں دونوں کو خود کش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جو لوگ آج پی ڈی ایم کو ایک غیرملکی سازش اور مولانا فضل الرحمٰن کے کچھ بیانات کو محمود اچکزئی سے قربت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ 2007میں محمود اچکزئی، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان ایک ہی اتحاد میں شامل تھے جس کا نام آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ تھا اور اِس اتحاد کے پلیٹ فارم سے راولپنڈی والوں کے بارے میں قاضی حسین احمد اور عمران خان جو باتیں کیا کرتے تھے، وہ باتیں چودہ سال کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں۔ میں یہ باتیں نہیں بھول سکتا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف طویل عرصہ سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اُن کی عدم موجودگی نے ایک سیاسی خلاء پیدا کیا، اُسی زمانے میں ہم نے پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا کی طرف چھلانگ لگائی۔

عمران خان بڑی مشکل سے 2002میں میانوالی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے اور جن لوگوں کے بہت قریب تھے، اُن میں چوہدری نثار علی خان، خواجہ محمد آصف اور قاضی حسین احمد شامل تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو سیاست میں فوج کی مداخلت کے بارے میں بہت سخت باتیں کیاکرتے تھے۔

جاوید ہاشمی پر تو اُس زمانے میں غداری کا مقدمہ بھی بنا یا گیا تھا لیکن عمران خان اور قاضی حسین احمد کے سخت بیانات کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ شیخ رشید احمد اِس وقت بھی وفاقی وزیر تھے۔

عمران خان کو تانگہ پارٹی کا کپتان قرار دیا کرتے لیکن قاضی صاحب کے بارے میں کوئی سخت بات نہ کرتے۔ وجہ یہ تھی کہ پرویز مشرف بیک وقت بہت سے سیاسی محاذ کھولنے سے گریز کرتے تھے۔

جب قاضی حسین احمد نے پاکستانی فوج کے بارے میں ’’رائل پاکستان آرمی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو جنرل مشرف کو مشورہ دیا گیا کہ قاضی صاحب کے خلاف کارروائی کی جائے۔

مشرف نے یہ مشورہ نظر انداز کردیا۔ اُنہوں نے جماعت اسلامی کو اندر سے توڑنے کی کوشش شروع کی۔ حال ہی میں جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کی یادداشتیں شائع ہوئی ہیں۔ سید منور حسن نے یہ یادداشتیں اپنی زندگی میں عطاء محمد تبسم کو ریکارڈ کرائیں۔

اِن یادداشتوں میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے خود ذاتی طور پر کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خان سےمل کر اُنہیں جماعت اسلامی سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ قاضی حسین احمد 22سال جماعت اسلامی کے امیر رہے اور سید منور حسن 16سال تک اُن کے ساتھ سیکرٹری جنرل تھے۔

اِن یادداشتوں میں سید منور حسن نے کچھ نہ کہتے کہتے بھی بہت کچھ کہہ دیا اور جماعت اسلامی کے اندر سے قاضی حسین احمد کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی سازش کو بھی بےنقاب کردیا۔

اِس حوالے سے قاضی حسین احمد اور سید منور حسن صاحب نے اپنی زندگی میں میرے ساتھ کچھ آف دی ریکارڈ باتیں کی تھیں جن کے گواہ شاہد شمسی ہیں۔

اب یہ دونوں بزرگ دنیا میں نہیں رہے لیکن میں اُن کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ نہیں توڑ سکتا البتہ میں سید منور حسن کی فکری دیانت اور سیاسی ذہانت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اُنہوں نے بڑے سلیقے سے قاضی حسین احمد کے خلاف جماعت اسلامی کے اندر سے ہونے والی ناکام بغاوت کا قصہ تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ جب آپ اِس قصے کو پڑھیں گے تو آپ کو گمان ہوگا کہ آج کل وہی کہانی جمعیت علماء اسلام میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

خاطر جمع رکھئے۔ پانچ دس سال بعد جے یو آئی کے اندر سے بھی کوئی سید منور حسن 2021کے کسی پرویز مشرف کا پردہ چاک کر دے گا اور کوئی مورخ یہ بھی لکھے گا کہ سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور سیاستدانوں کے خلاف غداری کے مقدمے قائم کرنے سے پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دھمکی دی ہے کہ فوج کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کے خلاف 72گھنٹے میں مقدمہ قائم ہوگا۔ فوج پاکستان کا قومی ادارہ ہے اور اِس کا احترام ہونا چاہئے لیکن حکومت کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ فوج حکومت کی حامی اور اپوزیشن کی مخالف ہے۔

سیاسی بیانات پر مقدمے قائم ہونے لگے تو پھر عدالتوں میں قاضی حسین احمد کی ایک کتاب ’’اسلام، مسلمان اور پاکستان‘‘ بھی پیش ہو گی جس میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں وہی کچھ لکھا ہے جو عمران خان نے 2011میں شائع ہونے والی اپنی آپ بیتی میں لکھا۔

قاضی حسین احمد کا انتقال 6؍جنوری 2013کو ہوا اور اُن کی یہ کتاب 2009میں جماعت اسلامی کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے چند ماہ بعد شائع ہوئی تھی۔

اِس کتاب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے سترہویں ترمیم کے ذریعہ مشرف کو وردی میں قبول کیا کیونکہ اُس نے 31؍دسمبر 2004تک وردی اُتارنے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب اُس نے وعدہ توڑ دیا تو پارلیمنٹ اور عدلیہ کچھ نہ کر سکی۔

قاضی صاحب اُس بے بس پارلیمنٹ سے باہر آنے کے حامی تھے لیکن مولانا فضل الرحمٰن حکمت کے نام پر وہی کچھ کر رہے تھے جو آج کل آصف زرداری کر رہے ہیں۔ 2021میں مولانا صاحب قاضی حسین احمد بن چکے ہیں اور وہی باتیں کر رہے ہیں جو قاضی صاحب 14سال پہلے کیا کرتے تھے۔

قاضی صاحب نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 160پر لکھا تھا ’’اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں دستوری اداروں کی بحالی اور فوجی مداخلت کے خاتمے کے لئے ایک بڑی عوامی تحریک چلائیں‘‘۔

مزید خبریں :