05 جنوری ، 2021
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر اور ڈائریکٹر لاہور قلندرز عاقب جاوید پاکستان کرکٹ ٹیم کی نیوزی لینڈ میں خراب کارکردگی پر بڑے برہم ہیں اور انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور منیجمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ 1952ء سے لیکر اب تک اتنی کمزور بیٹنگ اور بولنگ نہیں دیکھی، اور نہ ایسی ٹیم دیکھی ہے جس میں کوئی اسٹار ہی نہ ہو، میں نے موجودہ ٹیم کے میچز دیکھنا چھوڑ دیے ہیں، اس ٹیم کا کوئی امپکیٹ ہی نہیں ہے۔
لاہور میں اسپورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف لاہور کے میٹ دی پریس پروگرام میں گفتگو کرتے ہو ئے عاقب جاوید نے کہا کہ ٹیم میں یہاں گرنے کی کوئی وجہ تو ہوگی، جی اس کی وجہ ہے، ڈھائی برس پہلے کی آپ ٹیم دیکھ لیں وہ کہاں کھڑی تھی، اس ٹیم کا کپتان سرفراز احمد تھا، وہاں سے گرتے گرتے کپتانی اظہر علی کے پاس آتی ہے اور پھر بابر اعظم کے پاس آتی ہے اور اب وکٹ کیپر محمد رضوان کے پاس ہے، کتنا اور گرائیں گے؟
عاقب جاوید نے کہا کہ اس وقت ٹیم کا جو کوچ تھا وہ دنیا کا ایک نامور کوچ مکی آرتھر تھا، وہاں سے آپ مصباح الحق کے پاس گرتے ہیں جنہوں نے ایک دن کوچنگ نہیں کی، بابر اعظم کے پاس کوئی تجربہ نہیں، چیف سلیکٹر انضمام الحق جیسے لیجنڈ تھے فیصلہ کرنے اور بولنے والے شخص تھے، وہاں سے آپ گرتے ہیں پہلے مصباح الحق اور پھر گرتے ہیں محمد وسیم کے پاس، سب کے سامنے ہے پتہ نہیں ابھی ہم نے اور کتنا گرنا ہے۔
عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ وقار یونس کا دس برسوں میں یہ مختلف عہدوں پر پانچواں دور ہے، وہ کبھی ہیڈ کوچ ہوتے ہیں تو کبھی بولنگ کوچ، دیکھا جائے تو انہیں پہلی مرتبہ بھی کسی نے کیوں کوچ لگایا کیونکہ کوچنگ ایک پروفیشن ہے اور کوچ بننے کے لیے کم عمری میں ہی نچلی سطح پر کام کرنا پڑتا ہے اور کوچنگ کورسز ون ٹو ، تھری، فور کرنا پڑتے ہیں اور آپ کو منتخب کرنا پڑتا ہے کہ آپ کا مستقل پروفیشن کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل میں تو وقار یونس کمنٹیٹر ہیں، بیچ میں جہاں انہیں موقع ملتا ہے تو کوچنگ میں آجاتے ہیں وہ پاکستان ٹیم کی کوچنگ چھوڑ کر پھر کہیں کوچنگ نہیں کرتے اور ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح مصباح الحق کو کوچ لگانے والے سے پوچھا جانا چاہیے، کوچ لگانے کا کوئی تو معیار ہونا چاہیے، مجھے یہ دنیا میں کہیں نوکری لے کر دکھائیں، انہیں اسکول میں وہ نوکری نہیں دیں گے۔