Time 14 جنوری ، 2021
بلاگ

عبرت کی مثال

فائل:فوٹو

اُس کے اقتدار کے دن گنے جا چکے۔ وہ عبرت کی ایک مثال بننے والا ہے لیکن آج بھی اُس قابلِ نفرت شخص کو ایسے بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو سیاسی مخالفین سے نفرت اور گالم گلوچ پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اُن کے لیڈر نے اُنہیں صرف جھوٹ بولنا اور نفرت کرنا سکھایا ہے۔

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور نفرت کی آگ صرف دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی جلا دیتی ہے۔ اِسی لئے امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت رسوا ہو کر وائٹ ہاؤس سے نکلنے والا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں امریکا کو جتنا رسوا کیا اُتنا تو امریکا کے بڑے بڑے دشمن بھی اُسے نہ کر سکے۔ اقتدار کے آخری دنوں میں موصوف نے صدارتی الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے حامیوں کے ذریعہ جلاؤگھیراؤ شروع کر دیا جس پر اُن کی اپنی ہی ری پبلکن پارٹی کے بہت سے اہم لیڈر اُن کی مذمت کر رہے ہیں۔

فی الحال دنیا کی توجہ اُس نقصان پر ہے جو ٹرمپ نے امریکا کو پہنچایا لیکن جب خبطِ عظمت کا شکار یہ شخص وائٹ ہاؤس سے نکلے گا تو آہستہ آہستہ دنیا کو پتہ چلے گا کہ ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں کیا کیا تباہیاں مچائیں اور پاکستان پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

ٹرمپ نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لئے پاکستان کے بارے میں جو زبان استعمال کی، وہ اِس سے قبل صرف اور صرف ہندوستانی سیاستدانوں نے پاکستان کے بارے میں استعمال کی تھی۔ ٹرمپ کے دور میں امریکی اور ہندوستانی حکومت کا پاکستان کے بارے میں بیانیہ ایک ہو گیا۔ ٹرمپ نے یکم جنوری 2018کو ایک ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کے بارے میں کہا کہ امریکا نے پچھلے پندرہ سال میں پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دی اور جواب میں پاکستان نے ہمارے ساتھ جھوٹ بولا اور ہمیں دھوکہ دیا۔

ٹرمپ نے اسی ٹویٹ میں کہا کہ افغانستان میں ہم جن دہشت گردوں کا پیچھا کرتے رہے، پاکستان میں اُن دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ ٹرمپ کی یہ ٹویٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کرنے والے ہزاروں پاکستانی شہیدوں کی توہین کے مترادف تھی۔

ٹرمپ نے اِس خطے میں پاکستان کی طرف سے امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ادا کئے گئے کردار کو بھی فراموش کر دیا اور اِس رائے کو تقویت دی کہ امریکا ایک ناقابلِ اعتبار دوست ہے۔

امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا چمپیئن بنا ہوا ہے لیکن پاکستان میں امریکا نے ہمیشہ آمروں کی حمایت کی۔ آمروں نے امریکا کے لئے وہ خدمات سرانجام دیں جو کوئی سیاستدان سرانجام نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے پہلے آمر ایوب خان نے امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے دیے جہاں سے روس کی جاسوسی ہوتی تھی اور یوں روس کو ہم نے اپنا دشمن بنا لیا۔

ایوب خان نے امریکا کے تین سرکاری دورے کئے اور اُن کے دور میں دو امریکی صدور نے پاکستان کا دورہ کیا۔ آئزن ہاور 1959میں اور لنڈن جانسن 1967میں پاکستان آئے۔ 1969میں امریکی صدر رچرڈ نکسن پاکستان آئے اور یحییٰ خان نے چین کے ساتھ امریکا کا سفارتی ڈیڈ لاک ختم کرایا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے دو مرتبہ امریکا کا دورہ کیا۔ اُنہیں ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کی پاداش میں امریکی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لڑی اور سی آئی اے کے ساتھ مل کر ایک سپر پاور سوویت یونین کو کمزور کر دیا لیکن آخر میں ضیاء الحق بھی امریکی سازش کا نشانہ بنے۔

امریکا کے سب سے زیادہ دورے پرویز مشرف نے کئے۔ مشرف نے نو سالہ دور اقتدار میں امریکا کے نو سرکاری دورے کئے۔ ان کے دور میں صدر بل کلنٹن نے 2000اور جارج ڈبلیو بش نے 2006میں پاکستان کا دورہ کیا کیونکہ ایک دفعہ پھر پاکستان نے امریکا کو فوجی اڈے اور کئی دیگر سروسز بغیر چارجز کے فراہم کیں۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو دو مرتبہ اور نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے، دونوں وزرائے اعظم نے کوئی ایک ٹرم بھی مکمل نہ کی۔ دونوں کے دور میں کوئی ایک امریکی صدر پاکستان نہیں آیا۔

ٹرمپ نے ایک جمہوری حکومت کے دور میں پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے باز قرار دیا اور یہ بھول گئے کہ اُن کے اصل دوست تو پرویز مشرف تھے جنہوں نے نائن الیون کے بعد کشمیر کی تحریکِ آزادی کو بچانے کے نام پر افغان پالیسی تبدیل کی اور پھر کشمیر پر غیرعلانیہ سرنڈر کے لئے بھی تیار ہو گئے۔

پاکستان نے امریکا کا اتحادی بن کر جو نقصان اُٹھایا اُسے ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ چند دن پہلے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے پچھلے دس سال کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو اعدادوشمار کی روشنی میں پیش کیا۔

اس پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال اور اُس کے جواب کے باعث وہ اعدادوشمار پس منظر میں چلے گئے جن پر ہر پاکستانی کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ پچھلے دس سال کے دوران خود کش حملوں میں 97فیصد کمی ہوئی۔ 2009میں 87خود کش حملے ہوئے۔ 2013میں 46، 2018میں 14اور 2020میں صرف تین خود کش حملے ہوئے۔

2013میں پاکستان کے اندر ہر ماہ 90حملے ہوتے تھے۔ 2018میں ماہانہ 21اور 2020میں ماہانہ 13حملے ہوئے۔ 2008میں فاٹا اور سوات کے 32فیصد علاقے پر عسکریت پسندوں کا قبضہ تھا، آج عسکریت پسندوں کے قبضے میں کوئی علاقہ نہیں۔

اس پریس کانفرنس میں میجر جنرل بابر افتخار نے یہ بھی بتایا کہ 2010میں ہندوستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی 113خلاف ورزیاں کیں، 2013میں 464، 2018 میں 3351اور 2020 میں 3097خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ایل او سی پر سینکڑوں عورتیں اور بچے ہندوستانی گولہ باری سے شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

جیسے جیسے پاکستان کے اندر دہشت گردی کم ہوئی ہندوستان نے ایل او سی پر حملوں میں اضافہ کر دیا اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف ایک ڈس انفارمیشن مہم بھی چلائی جس میں ٹرمپ براہ راست ہندوستان کا پارٹنر تھا۔ جولائی 2018میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ڈرامہ کھیلا۔ اس ڈرامے کی آڑ میں 5؍اگست 2019کو مودی نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔

ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کا ڈرامہ کرتا رہا۔ اس دوران ہندوستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعہ پاکستان کو بلیک میل کیا جاتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤڈالا گیا اور کلبھوشن یادیو کو سہولتیں بھی دلوائی گئیں۔

ٹرمپ کے دور میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہوا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ٹرمپ خود ایک عبرت کی مثال بننے والا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ کے جانے کے بعد کشمیر اور فلسطین پر امریکا کی پالیسی بدل جائے گی۔

پاکستان کے حکمرانوں کو امریکا کی بجائے صرف پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئے اور ان حکمرانوں کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے جو امریکی مفادات کی جنگ لڑتے لڑتے عبرت کی مثال بن گئے۔ مشرف کی مثال آپ کے سامنے ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔