ایک ڈراؤنا خواب ختم ہوا

فوٹو: فائل

عالمی سیاست کا ایک ڈراؤنا خواب خدا خدا کرکے ختم ہوا، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے طاقت ور ملک کے ذہنی مریض حاکم کا دور صدارت اپنے انجام کو پہنچا۔ 

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی پارلیمان کے ایوان بالا نے کثرت رائے سے طے کیا کہ ان کو نہ صرف ان کے منصب سے ہٹایا جائے بلکہ یہ خیال بھی رکھا جائے کہ وہ آئندہ کوئی چال چل کر ملک کی صدارت پرفائز نہ ہونے پائیں۔

رائے شماری میں خود ٹرمپ کی پارٹی کے دس ارکان نے بھی ان کے خلاف ووٹ دیا اور یوں ایوان صدر میں ایک ایسے شخص کی موجودگی اپنے انجام کو پہنچی جس نے یہ منصب ملتے ہی اندھا دھند بڑے بڑے فیصلے کرنے شروع کردیے، اتنی بڑی جمہوریت کا آئین بے بس ہوکر بیٹھ رہا اور ایک فرد واحد نے جو حکم چاہا صادر کردیا اور جوفیصلہ چاہا نافذ کردیا۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے صدر مقام واشنگٹن میں ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی ہے، ملک کے نو منتخب صدر کے عہدہ سنبھالنے کی تقریب ہونے والی ہے جس کا نظارہ کرنے کے لیے ایک خلقت جمع ہوتی ہے لیکن آج عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس تقریب کو گھر بیٹھ کر ہی دیکھیں اور کیپٹل ہل تک آنے کی زحمت نہ کریں۔ 

عوام سے یہ درخواست کرنے والوں کی ٹانگیں اس خوف سے کانپ رہی ہیں کہ کہیں ٹرمپ کے حامی بپھر اٹھے اور پارلیمان کی عمارت پر ایک بار پھر چڑھ دوڑے تو قیامت آجائے گی، ہماری چشم تصور نہیں، حقیقی چشم خود پر حیران ہے کہ اسے یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ امریکا جیسے بے پناہ ترقی یافتہ ملک میں صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا شور مچے گا اور ایک امیدوار رائے شماری کے نتائج ماننے سے انکار کردے گا اور کہے گا کہ اس کی کامیابی پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ 

یہ نظارہ ان غریب ، محروم اور مظلوم ملکوں میں تو بار بار دیکھنے میں آتا ہے جس کا دیا یہ ملک کھاتے ہیں لیکن اتنے بڑے ان داتا ملک میں یہ اندھیر گردی مچے گی، اس کا تصور کرنا بھی محال تھا۔

بہر حال صدر کا مواخذہ ہوا اور اب دعا یہی ہے کہ خدا خیر کرے، ایسے میں جی چاہتا ہے کہ امریکا اور اہلِ امریکا سے دو چار باتیں کہی جائیں، ایک تو یہ کہ امریکا دنیا سے معافی مانگے، ٹرمپ صاحب نے جو جو من مانیاں کی ہیں اور جس طرح وہائٹ ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے بڑے بڑے حکم جاری کیے ہیں ان پر نہ صرف دنیا سے معافی مانگی جائے بلکہ ان احمقانہ فرمانوں کو کالعدم قرار دے کر ان کی یوں نفی کی جائے کہ حالات واپس شعور اور خرد مندی کی طرف لوٹیں۔ 

امریکا سے ملنے والی میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کردی جائے، یہ تھا وہ حکم جس کے جاری ہوتے ہی دنیا نے اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے روک لی تھی، پھر ٹرمپ نے سرحد پار کرنے والوں کے بچوں کو یرغمال بنایا اور ماں باپ کے ساتھ بے رحمی کا مظاہرہ کیا، مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی اعلان کیا کہ دنیا کا موسم تلپٹ ہونے کی بات محض ڈھکوسلا ہے اور اس بارے میں دنیا کے ملکوں نے مل کر پیرس میں جو معاہدہ کیا تھا، امریکا اسے نامنظور کرتے ہوئے اس معاہدے سے نکل رہا ہے۔

اسی طرح امریکا عالمی ادارہ صحت کے اپنے حصے کا فنڈ دینے سے انکار کرتا ہے یایہ کہ ہمیں کسی کے جذبات سے غرض نہیں، اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس ہی میں ہوگا، یہ اور اسی طرح کے آئے دن کے حکم نامے دنیا کو دنگ تو کرتے رہے لیکن دنیا پر ایک عجب بے بسی کا عالم طاری تھا کہ کسی نے اُف تک نہ کی۔

امریکا اپنے جس دستور پر ناز کرتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس پر قلم پھیرے، آئین میں اپنی ہی حماقتوں کو درست کرنے کی شق شامل کی جائے اور وہ چاہے فلسطینی ہوں یا میکسیکو کے ترسے ہوئے محروم و مظلوم باشندے ، سب کی داد رسی ہونی چاہیے۔

ایک او ربات طے کرنے کی ضرورت ہے، جمہوریت کا یہ اصول غور طلب ہے کہ جسے اکثریت کی حمایت حاصل ہو اسی کو حق پر مانا جائے، چاہے اس کے دماغ میں خلل ہو، چاہے وہ فاترالعقل ہو، چار سال پہلے صدارتی انتخاب کے وقت بھی ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر میں ہار گیا تو نتیجہ قبول نہیں کروں گا۔ 

اس وقت یہ بات سنی ان سنی کردی گئی تھی حالاں کہ وہی خطر ے کی پہلی گھنٹی تھی۔امریکا کا سیاسی نظا م بھی خوب ہے جس کی بنیاد دو سیاسی جماعتوں پر رکھی ہے، گھوم پھر کے وہی حکومت بناتی ہیں یا حزب اختلاف بن جاتی ہیں۔ 

اب اس تازہ کھلبلی کے بعد اس سوال پر غور ہونے لگا ہے کہ ملک میں ایک تیسری پارٹی بھی ہونی چاہیے، سچ تو یہ ہے کہ ملک میں اور بھی بہت کچھ ہونا چاہیے، عالمی سیاست اور کورونا کی عالمی وبا نے دنیا کے باشندوں کا نہیں ،نسلِ انسانی کا جو حال کیا ہے، اس کے بعد ضرورت ہے کہ انسانیت کے سارے رویّوں پر غور کیا جائے اور اپنے طر زِ عمل میں جہاں جہاں ضرورت ہو،کچھ چیزیں رد کی جائیں اور کچھ قبول کی جائیں چاہے وہ کتنی ہی نا پسندیدہ ہوں۔

ایسے موقعوں پر لوگوں کی آنکھیں کھل جایا کرتی ہیں، دنیا اپنی ہی حرکتوں سے عبرت حاصل کرتی ہے، دو بڑی عالمی جنگوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جن میں انسان کے گاجر مولی کی طر ح کٹنے کے بعد دنیا نے طے کیا کہ مل کر بیٹھیں اور اپنے رویّے درست کریں، وہ مرحلہ پھر آگیا ہے۔ 

جنگیں تو بند ہوجاتی ہیں، اس سیاست اور صحت کے بحران کے بعد جو صورت حال نمودار ہوئی ہے، اس کی نہ تو کوئی مثال ملتی ہے نہ دنیا کسی تجربے سے گزری ہے، یہ سب کچھ پہلی بار ہورہا ہے اس لیے اب جو بھی قدم اٹھایا جائے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے ورنہ پھر کہیں کوئی سر پھرا حاکم یا دو جماعتی نظام ہمارا جینا دوبھر نہ کردے، اب ہماری نگاہیں امریکا پر نہیں ، کرہ ارض پر لگی ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہوگا ساری دنیا مل کر کرے گی تب ہی وہ قابل ِ قبول ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔