16 جنوری ، 2021
امریکا اور طالبان کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ڈیل 29 فروری 2020 کو طے پائی تھی، جس میں کہا گیا کہ غیرملکی افواج چودہ ماہ کے عرصے میں (مئی 2021سے پہلے) افغانستان سے نکلیں گی، امریکا کی طرف سے دوسرا وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کردئیے جائیں گے اور انہیں اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکال دیا جائے۔
زلمے خلیل زاد نے یہ وعدے تین مفروضوں کی بنیاد پر کیے تھے، ایک یہ کہ طالبان تشدد میں کمی لائیں گے۔
دوسرا القاعدہ اور اسی نوع کی دیگر تنظیموں سے ناطے توڑ کر انہیں اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے اور تیسرا یہ کہ ان چودہ ماہ کے دوران بین الافغان مذاکرات کے ذریعے سب کے لیے قابل قبول حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ لیکن عملا کیا ہوا ؟۔
طالبان قیدیوں کی رہائی اور بلیک لسٹ سے نکلنے کا وعدہ تو پورا ہوا لیکن تشدد میں کمی صرف اس حد تک آئی کہ امریکیوں نے طالبان پر اور طالبان نے امریکیوں پر حملے بند کیے تاہم دوسری طرف بین الافغان جنگ جاری تھی اور جاری ہے۔ جن بین الافغان مذاکرات کا ذکر کیا گیا تھا، وہ چند روز میں شروع ہونے کی بجائے کئی ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے۔
کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد صرف ایجنڈے پر اتفاق ہوا اور اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کی ٹیم باقی چار ماہ میں کسی انتظام پر متفق ہوسکے۔
طالبان کا موقف یہ ہے کہ حکومت انہیں دے کر ان کی امارات اسلامی بحال کی جائے اور کابل میں بیٹھے ہوئے سیاسی عناصر اس کا حصہ بن جائیں۔ دوسری طرف افغان حکومت کا مطالبہ ہے کہ ان کی حکومت آئینی حکومت ہے اور طالبان ان کی حکومت کا حصہ بن جائیں۔ظاہر ہے نہ افغان حکومت اس کے لیے تیار ہوگی اور نہ طالبان افغان حکومت کا مطالبہ تسلیم کرسکتے ہیں۔ یہ ڈیل تو باقی چارماہ کے دوران طے پاتی نظر نہیں آرہی۔
چنانچہ اب امریکا پھنس گیا ہے۔ وہ اگر اپنی افواج وعدے کے مطابق نکالتا ہے لیکن افغانستان کو اسی انتشار میں چھوڑتا ہے تو اسے نہ صرف سوویت یونین کی طرح بھاگ جانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ مستقبل میں ہونے والی تباہی کے لیے بھی اس کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
دوحہ معاہدے کے نتیجے میں طالبان کا مورال بہت بلند ہوا ہے۔ قیدیوں کی رہائی سے ان کے ہزاروں تجربہ کار جنگجو فاتح بن کر ان کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں اور امریکی افواج کے نکلنے کی صورت میں وہ افغانستان کے اندر ماضی کو دہراسکتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بائیڈن حکومت، طالبان کے ساتھ معاہدہ توڑ دے۔ اس صورت میں بھی امریکا کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ معاہدے کی توثیق روس، چین اور پاکستان جیسے ملکوں کے علاوہ اقوام متحدہ سے بھی کروائی گئی ہے۔
بائیڈن کے لیے مزید افواج دوبارہ افغانستان بھیجنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ان کی حکومت کے پاس اب صرف چار ماہ ہیں کہ اس دوران وہ افغان حکومت اور طالبان کو کسی ڈیل تک پہنچا دے اور اس کے لیے وہ سارا زور پاکستان اور افغان حکومت پر ڈال رہا ہے۔
امریکا طالبان اور کابل میں بیٹھی سیاسی قوتوں پر مشتمل عبوری حکومت کا آئیڈیا سامنے لے آیا ہے لیکن کھل کر اس کا مطالبہ نہیں کیا،تاہم تمام فریقوں کو مختلف طریقوں سے یہ پیغام دیا جارہاہے کہ وہ عبوری حکومت کا راستہ ہموار کریں۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی، عبدﷲ عبدﷲ، گلبدین حکمتیار اور حکومت سے باہر افغان بھی عبوری حکومت کے حق میں ہیں لیکن ڈاکٹر اشرف غنی اس کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے سابقہ موقف پر اڑے ہوئے ہیں اور اس آئیڈیا کے اس قدر مخالف ہیں کہ زلمے خلیل زاد کے گزشتہ دورہ کابل کے موقع پر انہوں نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔
دوسری طرف امریکا پاکستان پر زور ڈال رہاہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور سب قوتوں پر مشتمل عبوری حکومت کے لیے تیار کرے۔ جبکہ اشرف غنی کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور ان کی حکومت کا حصہ بن جانے کے لیے تیار کرے۔
چند روز قبل ملابرادر کی قیادت میں طالبان کے وفد کو اسی غرض سے پاکستان مدعو کیا گیا تھا لیکن اشرف غنی حکومت کا حصہ بننا تو درکنار،طالبان عبوری حکومت کا حصہ بننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اسی طرح وہ اپنی مرضی کے حل سے قبل جنگ بندی کو بھی اپنی تحریک کی موت سمجھتے ہیں۔
اب پاکستان ان پر ایک حد سے زیادہ دبائو بھی نہیں ڈال سکتا کیونکہ ان کو روس، چین، ایران اور کئی دیگر ممالک کے سہارے مل گئے ہیں۔ دوسرا عملی مسئلہ طالبان کو یہ بھی درپیش ہے کہ وہ سب ایک پیج پر نہیں۔ مثلاً قطر کی مذاکراتی ٹیم کو یہ شکایت ہے کہ فیلڈ کمانڈرز ان کے فیصلوں پر پوری طرح عمل نہیں کررہے جس کی وجہ سے ان کے مذاکرات کار کی پوزیشن کمزور ہورہی ہے۔
مثلاً وہ شکایت کررہے ہیں کہ ہم نے تشدد میں کمی کا وعدہ کیا ہے لیکن کئی جگہوں پر فیلڈ کمانڈروں نے جنگ اور بھی گرم کردی۔
دوسری طرف فیلڈ کمانڈرز یا سخت گیر نظریات کے حامل طالبان سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں ہیں اور طالبان کی سیاسی ٹیم کے لیے مشکل ہورہا ہے کہ انہیں سیاسی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کرے۔ ان کے مذاکرات کار یہی عذر پیش کررہے ہیں کہ مشترکہ عبوری سیاسی حکومت کا حصہ بننے کی صورت میں ان کی صفوں میں موجودہ امارت اسلامی کی بحالی پر اصرار کرنے والے یہ طالبان باغی ہوجائیں گے۔
دوسری طرف افغان حکومت کا پاکستان سے مطالبہ کچھ اور جبکہ امریکا کا کچھ اور ہے جبکہ تیسری طرف طالبان نہ امریکا کی ڈیمانڈ تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ اشرف غنی کی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان حالات میں پاکستان طالبان پر ایک خاص حد سے زیادہ دبائو بھی نہیں ڈال سکتا کیونکہ موجودہ صورت حال میں ان کو دشمن بنانا، خودکشی کے مترادف ہوگا۔
دوسری طرف اگر افغانستان انتشارکی طرف جاتا ہے تو سب سے زیادہ متاثر بھی پاکستان ہوگا۔ یہ تو صرف ایک فرنٹ یعنی افغانستان کے فرنٹ کا چیلنج ہے جو پاکستان کو درپیش ہے لیکن دوسری طرف انڈیا، مڈل ایسٹ اور کئی دیگر اطراف سے بھی بدترین چیلنجز کا سامنا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کی حکومت کو ان چیزوں کا ادراک ہے اور نہ ان ایشوز سے کوئی سروکار۔ وہ داخلی محاذ پر مخالفین کو لتاڑنے میں لگی ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی انتشار کی طرف جارہا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔