18 جنوری ، 2021
جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ انہونا اور قابلِ افسوس ہی ہے، ہر روز ایک نئی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب تو یہ کہنا اور سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی؟ کیوں کہ بحیثیت قوم ہم نے اپنی حرکتوں سے اپنے آپ کو اتنا بدنام لیا کہ اب نہ کوئی ہم پر اعتبار کرتا ہے، نہ ہماری کسی بات کی اہمیت رہی ہے۔
اوپر سے ہماری سرد مہری کی یہ حالت ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، کسی کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے ملک دنیا بھر میں بدنام بھی ہو جائے تو یہاں ایک پتا نہیں ہلتا۔
ملائیشیا نے پی آئی اے کا جہاز ،جو کوالالمپور سے مسافروں کو لے کر پاکستان آنے کے لیے تیار تھا، کو مسافروں سے خالی کروا کر اپنے قبضے میں لے لیا اور وجہ یہ بتائی کہ پی آئی اے نے اِس جہاز، جو لیز پر لیا گیا تھا، کے پیسے (ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالرز) گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ادا نہیں کیے تھے، اس لیے ملائیشیا نے یہ حتمی اقدام اٹھایا جس سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی لیکن نہ متعلقہ وزیر کو بدلا گیا نہ اُن کا استعفیٰ آیا بلکہ وہ تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہو گئے کہ در اصل مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت نے یہ طیارے مہنگی لیز پر لیے تھے۔
پی آئی اے کے ایم ڈی ارشد ملک جو ائیر فورس کے ائیر مارشل بھی رہےہیں اور جن کو پی آئی اے کا سربراہ بنانے کے لیے اُنہی کی قابلیت کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے اس عہدہ پر تعیناتی کے لئے وہ شرائط رکھیں کہ اُن کے علاوہ کوئی دوسرا اِس عہدہ کے لیے منتخب نہ ہو سکے، بھی اپنی جگہ قائم ہیں، نہ اُن سے استعفیٰ مانگا گیا، نہ اُنہیں عہدہ سے فارغ کیا گیا۔
نہ کوئی سوال پوچھا گیا، نہ کسی کو کوئی جواب دینے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیز کے پیسے نہیں دیے تھے تو پھر جہاز کو ملائیشیا بھیجنے کا کیا جواز تھا؟ اب لیز کے پیسہ بھی دینے ہیں، جہاز تو ویسے ہی قبضہ میں لے لیا گیا، اوپر سے اب ڈر یہ ہے کہ لیز کے معاہدہ کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ بھی بھرنا پڑ سکتا ہے لیکن کسی کو کیا فکر؟ پیسہ نہ تو وزیراعظم اور اُن کی کابینہ اور نہ ہی پی آئی اے کے سربراہ کی جیب سے جائے گا، پیسہ تو قومی خزانے یعنی قوم کے ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔
گزشتہ جمعہ کے روز جب اس شرمندگی کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا، پی آئی اے کے کسی نمائندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ چوں کہ اگلے دو دن (ہفتہ اور اتوار) چھٹی ہے اس لیے سوموار کو پی آئی اے کی لیگل ٹیم اِس معاملہ پر غور کرکے کوئی حکمت عملی بنائے گی۔
شرم آنی چاہیے اس رویے اور اِس سرمہری پر، یہ ہے عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کی گڈ گورننس جس کے بارے میں وہ اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بڑے دعوے کرتے تھے؟
ابھی تھوڑا ہی عرصہ قبل وزیر ہوا بازی کے ایک انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان کہ پی آئی اے کے پائلٹس کی اکثریت کے پاس جعلی ہوا بازی کے لائسنس ہیں، نے نہ صرف پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا بلکہ یورپ اور کئی دوسرے ممالک کی طرف سے پی آئی اے کے آپریشن کو معطل کردیا گیا بلکہ بہت بڑی تعداد میں پاکستانی پائلٹس جو غیرملکی ائیر لائنز میں نوکریاں کر رہے تھے اُن کو بھی گراونڈ کر دیا گیا، اُن کی نوکریوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔
بعد ازاں پتا چلا کی موصوف وزیر صاحب نے جو کہا تھا وہ درست نہیں بلکہ جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹس کی تعداد کافی کم ہے، اُس پر بھی وزیراعظم اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
براڈ شیٹ کیس بھی پاکستان کے لیے ایک اسکینڈل بن گیا جس نے ن لیگ یا شریف فیملی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی حکومت اور نیب کے متعلق سنگین سوالات کھڑے کر دیے۔
اس کیس میں بھی اربوں کا نقصان پاکستان کے قومی خزانے کو ہو چکا اور نجانے مزید کتنا نقصان ہوگا لیکن نہ کسی انکوائری کا حکم ہوا، نہ ہی اِس معاملہ میں دلچسپی لی جا رہی ہے کہ ذمہ داروں کو پکڑا جائے، اُنہیں سزا دی جائے۔
ایک طرف لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کو اربوں کی ادائیگی کے لیے زبردستی پیسہ نکال لیا جاتا ہے تو دوسری طرف اُسی بڑاڈ شیٹ سے پی ٹی آئی حکومت نواز شریف کے سنگاپور میں پڑے مبینہ ایک ارب ڈالرز کے حصول کے لیے بات چیت کرتی ہے اور اِس بات چیت سے متعلقہ دستاویزات میں یہ بھی سنگین الزام لگایا گیا کہ مبینہ طور پر پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر نے براڈ شیٹ سے نواز شریف کے مبینہ ایک ارب ڈالر ریکور کرنے کی صورت میں کمیشن مانگا۔
اس معاملہ پر بھی حکومت ابھی تک خاموش ہے، نہ کوئی انکوائری، نہ ہی کوئی تحقیقات، ہاں حکومت اور وزیراعظم کی طرف سے براڈ شیٹ کے معاملہ کو ن لیگ اور نواز شریف کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ضرور استعمال کیا جارہا ہے۔
جواباً ن لیگ بھی اس معاملہ پر سیاست کر رہی ہے اور اسے حکومت کے خلاف ایک اسکینڈل بنا کر پیش کر رہی ہے، گویا زور سیاست پر ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تو تو، میں میں کا گھٹیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے، جس کی کسی کو فکر نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔