07 مارچ ، 2021
2018 کے الیکشن سے چند ہفتے قبل میرے تحریک استقلال کے دیرینہ دوست مرحوم نعیم الحق نے، جو پی ٹی آئی کے بانی کارکن اور عمران خان کے دوست جانے جاتے تھے، کراچی جم خانہ میںمجھ سے پوچھا آج کل کس پارٹی میں ہو،میں نے جواب دیا گزشتہ 20سال سے سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے، کہنے لگے تو پھر مجھ سے کل ملو اور میں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن کا ٹکٹ دلواتا ہوں۔
اس وقت کراچی میں صرف پی ٹی آئی کا زور ہے۔عوام پی پی پی کو ووٹ نہیں دیتے، ایم کیو ایم 3دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ کامیابی کے زبردست چانس ہیں یہ موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا ۔میں نے معذرت کی کہ پی ٹی آئی اب وہ پی ٹی آئی نہیں رہی اس نے بھی دیگر جماعتوں سے بدنام سیاست دانوں کو اپنی صفوں میں شامل کر کے عمران خان کے دعوئوں کی نفی کر دی ہے
یہ لوگ پی ٹی آئی کو بھی دیگر جماعتوں کی طرح گندہ کر کے رہیں گے اور وقت پڑنے پر اس کو چھوڑ جائیں گے ۔ پی ٹی آئی کواپنے پچھلے الیکشن ہارنے سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مرحوم نے کہا کہ ہماری مجبوری تھی ہم کو الیکٹ ایبلز (جیتنے کی پوزیشن رکھنے والے) کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔
اس لئے ان کو ٹکٹ دینے پڑے میں نے کہا تو پھر کرپٹ لوگوں کو کیسے پکڑیں گے ،بولے الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان کسی کو نہیں چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے معذرت کی کہ اب وہسیاست نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی اب تو یہ ایک کاروبار اور غنڈہ گردی بن چکی ہے جس سے مجھے سخت نفرت ہے۔
آپ دیکھنا یہ پارٹی جو اب اپنے موقف سے ہٹ چکی ہے‘ اس کا انجام بھی جلد نظر آجائے گا۔ وہی ہوا ،جب الیکشن جیتا تو حکومت بنانے کے لئے چوہدری برادران سے، جن پر نیب نے درجنوں مقدمات بنائے ہوئے تھے، سب سے پہلے ہاتھ ملایا جن کو خود سیاسی پناہ کی ضرورت تھی۔
شیخ رشید کو جن کو بقول عمران خان میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں اپنا مشیر اعلیٰ، ایم کیو ایم جس کی للکار سے انہوں نے سیاست شروع کی تھی ان کو بھی 90پر جا کر دعوت دے ڈالی۔ 13 وزراء تو مسلم لیگ (ن)،مشرف اور پی پی پی میں کرپشن میں ملوث تھے ان کو بھی اپنی چھتری میں پناہ دے دی۔
گویا روز اوّل سے گندی سیاست کا دروازہ کھول کر عوام کو حیران کر دیا اور اپنے دعوؤں اور وعدوں کو ہوا میں بکھیر کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماردی، رہی سہی کسر عاقبت نااندیش مشیروں سے حکومت چلانے کی ابتدا کر کے پوری کردی۔ نتیجے کے طور پر 3سال میں قوم کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ ہر ادارے کا بیڑہ غرق کر دیا اور اب سینٹ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے 180حامیوں میں سے صرف 164 ووٹ حاصل کر کے پی ٹی آئی کے مشیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ جو پی پی پی کے بھی منظور نظر تھے خود پی پی پی کے یوسف رضا گیلانی معزول وزیر اعظم کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو گئے ۔
اب سب کورس میں ووٹ خرید کر جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ ڈسکہ الیکشن کی دھاندلی جس کی خود الیکشن کمیشن نے نشاندہی کی اور پی ٹی آئی کو بے نقاب کر کے دوبارہ الیکشن کروانے کا عندیہ دیا۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز سے جب ایک اخبارکے نمائندے نے پوچھا آپ اس دھاندلی کےانکشاف پر کیا کہیں گے۔ تو فرمایا آپ نے دیکھا صرف ہمارے دور میں الیکشن کمیشن آزاد ہے۔
گزشتہ 3سال میں 180ارب ڈالر نکلوانے کے دعوے میں کرپٹ سیاست دانوں سے ایک ٹکہ بھی وصول نہیں ہو سکا۔ صرف جیل یاترائوں کو ہی نیب اپنی کامیابی قرار دیتی ہے۔ جب احتساب میں صرف ایک پارٹی کو گھیرا جاتا ہے تو عوام کا اعتماد ختم ہو جا تا ہے۔ اب تو باضابطہ نیب اسحاق ڈار، اکرم خان درانی، ایف بی آر کے سابق سربراہ سمیت کئی افراد کیخلاف مقدمات ختم کر رہی ہے۔جن کی اربوں کی پراپرٹیاں دبئی اور لندن میں موجود ہیں۔ اس الیکشن میں ہارنے کے بعد 47افراد سے کیسے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
کیا پی پی پی کے ماضی والے الیکشن میں دو تہائی افراد ہونے کے باوجود فرشتوں نے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کو ناکام نہیں کیا تھا۔ یہ کھیل اب پی ٹی آئی دہرائے گی،پی پی پی نے کھل کر 8 افراد کو خریدا مگر اس میں سے بھی ایک ووٹر رقم کھا کر جل دے گیا۔ اب ایک نیا پنڈورا بکس ہارنے کے اسباب جاننے کے لئے کھلے گا ۔
جبکہ سینٹ الیکشن سے پہلے سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 3 منحرف نمائندے پی پی پی حصار میں لائے گئے، مگر پی ٹی آئی والوں نے بھری اسمبلی میں ان کو مار لگائی اور اسپیکر بھی کچھ نہ کر سکا۔PSL کی آڑ میں بجلی، پیٹرول، دودھ، آٹا، چینی پھر مہنگی کرنے کے لیے خود پی ٹی آئی مافیا سرگرم ہے۔
چینی خیر سے100روپے سے اوپر جا چکی ہے۔ 30روپے فی کلو والا آٹا 80روپے فی کلو ہو گیا ہے۔ مرغی کا گوشت 400 روپے فی کلو ہو چکا ہے ۔قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے دن دہاڑے ڈیوٹی پرموجود ٹریفک پولیس کے ایک جوان کو کچل دیا ۔پھر کشمالہ طارق کے بیٹے نے 4نوجوانوں کو کچل ڈالا۔ لاہور میں 12سالہ بچے نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کر ڈالی۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی آواز سنائی دی؟ عوام کی داد و فریاد سننے والا اب کوئی نہیں ہے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے، بیروزگاری بڑھ کر فاقو ں پر نوبت آچکی ہے۔ سندھ حکومت کے ہاتھوں کراچی کی سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بلدیاتی نظام مفلوج کر کے شہریوں سے بدلہ لیا جا رہا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔