Time 12 مارچ ، 2021
بلاگ

اقتدار کا کھیل

فائل:فوٹو

موجودہ حکومت کے خلاف 11 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آیا تو عوام کو امید ہوچلی تھی کہ اب منتخب ایوانوں اور چوک چوراہوں میں ان کے بنیادی حقوق کی لڑائی لڑی جائےگی،حکومت کو عوام پر ظالمانہ مہنگائی کا بوجھ ڈالنے سے روکا جائے گا، بیروزگاری اور معاشی حالات کو بہتر بنانے پر مجبور کیا جائےگا مگر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اپوزیشن عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی بجائے حکومت کو گرانے پر لگ گئی۔

 اسٹیبلشمنٹ پرشکوؤں اور الزامات کی گولہ باری سمیت مظاہرے، احتجاجی جلسے اور اتحادیوں کو توڑنے کےلئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے گئے۔ مسلسل ناکامیوں کے درمیان اپوزیشن کو یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ کی نشست پر کامیابی کی صورت خوشی تو ملی تاہم عمران خان نے ازخود قومی اسمبلی سے اعتمادکا ووٹ لیکر اپوزیشن کو آئندہ کی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

 180کے مقابلے میں 160ووٹ رکھنے کے باوجودسینیٹ کی نشست پراپوزیشن امیدوار کی فتح حکومت کےلئے تو ناقابلِ یقین تھی خود اپوزیشن اتحاد کےلئے بھی حیرت سے کم نہ تھی گو سینیٹ انتخابات سے دو روز پہلے زرداری صاحب کی جانب سے تمام اپوزیشن جماعتوں کو گیلانی کی کامیابی کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی مگرکوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا خاص طور پر محض ایک رات پہلے علی گیلانی اور ناصر شاہ کی دو ویڈیوز سے معاملہ مزید مشکوک ہوگیا تھا۔الیکشن کمیشن نے بھی ازخود فوری نوٹس لینے کی بجائے بروقت الیکشن کرادیا پھرہوا وہی جو’’سب پہ بھاری‘‘نے طے کیا تھا۔

یہ سب کیسے ہوا؟ ابھی فی الحال کوئی نہیں جانتا ہاں آصف زرداری ضرور جانتے ہیں، پیپلزپارٹی کے میلہ لوٹنے پر خود ن لیگی قیادت بدستور انگشت بدنداں اور مولانا ورطۂ حیرت میں ہیں ۔ بعض سینئر رہنماؤں کےمطابق سینیٹ میں اپ سیٹ کرنے کے بعدوزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنےکی پریشانی ابھی تک درد سر ہے۔

غیر جانبدار ہوجانےکے اعلان کےباوجود اسٹیبلشمنٹ موجودہ جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار نہ کرنے پر مصر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانبدار رہنے کی اپوزیشن کویقین دہانیاں اپنی جگہ مگر حکومت کو گھر بھیجنا اس پیکج میں شامل نہیں،کہانی بدل رہی ہے اور اس میں اہم کردار پیپلزپارٹی کا ہے، زرداری صاحب نےبیمارمیاں صاحب کی غیر موجودگی میں بھرپور ایکٹو ہوکر پارٹی میں دوبارہ جان ڈال دی ہے،اپنی روایتی سیاسی حکمت عملی سےاسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑی” ڈیل “ کاحصہ بن چکے ہیں جو آئندہ ان کو فائدہ دے گی ۔

اپوزیشن کئی ماہ کی حکومت گرانے کی کوششوں میں ناکامی کےباوجود ایک نئے جذبے سے لانگ مارچ کی تیاری کررہی ہے، ن لیگ اور مولانا کپتان کی فوری چھٹی جبکہ زرداری آئندہ اقتدار کے حوالے سے نئی ڈیل میں ہیں تاہم لانگ مارچ کاجامع پلان بن چکاہے اورکراچی سے خیبر تک، ملک کےتمام شہروں سےلوگ اکٹھے کرکے 30 مارچ تک اسلام آباد لانے کا فیصلہ ہوچکاہے، دھرنا بھی ہوگا مگر سوال اٹھ رہاہے کہ 126 دن کا دھرنا حکومت نہیں گراسکا تو رمضان سے پہلے چند روز کےدھرنے سے حکومت گھر کیسے جائےگی ؟ 

شنید ہے کہ حکومت بھی طاقتوروں کو اعتماد میں لیکر اپوزیشن قیادت کیخلاف پرانے اور نئے مقدمات و گرفتاریوں میں تیزی کا فیصلہ کرچکی ہے،میڈیا کے گردبھی گھیرا مزید تنگ ہوگا۔عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار کی خواہش اپنی جگہ مگر اصل مقصد اور لڑائی وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنا ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہےکہ حکمران اور اپوزیشن کے اتحاد میں شامل جماعتوں کےلئے آئندہ الیکشن متحد ہوکر لڑنا اور اپنااپنا حصہ لینا ایک بڑا چیلنج ہوگا صرف ن لیگ میں وزارت عظمیٰ کے چار امیدوار ہیں ، میاں صاحب خود نہ واپس آسکےتو وہ صرف صاحبزادی کو ہی اعلیٰ منصب پر دیکھنا چاہیں گے جبکہ چھوٹے میاں کی سوچ قطعی مختلف ہے۔پیپلزپارٹی میں تین اہم لوگ منصب کےسخت خواہش مند ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے قائد کے دل میں بھی خود کوسب سے زیادہ اہل سمجھنے کےباعث یہ خواہش بدرجہ اُتم موجود ہے۔

طاقتور حلقوں سے متعلق تبصرہ کیا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوچکے ہیں اور وہ اپنی سیاسی بصیرت و حکمت سے اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنوانے کی ڈیل میں کامیاب ہوسکتےہیں ۔تمام مقدمات میں ضمانت کے بعدفوری لانگ مارچ کی بجائے عدم اعتماد کا آئیڈیا دینا بھی اسی کا حصہ تھا جبکہ اب بھی لانگ مارچ کو جلد از جلد انجام پذیر کرنابھی انہی کی ذمہ داری ہوگی۔

سیاسی نقاد کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرےگااپوزیشن اتحاد کےلئے ایک انار اور سو بیمار والامعاملہ مزید سنجیدہ مسئلہ اور ایک بڑا چیلنج بنتا جائےگا ۔کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے کسی بھی بہانے اقتدار سےفراغت پر تحریک انصاف میں ابھی سے کئی امیدوار ہیں تاہم آئندہ انتخابات یعنی 2023 کے انتخابات سےپہلے پارٹی کے اندر بھی بہت ہی بری صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

ایک اہم حکومتی وزیر کےمطابق موجودہ بدترین کارکردگی اور غیر منظم سیاسی حکمتِ عملی کےباعث حکمران جماعت کےزیادہ تر ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور وزراء اپنے مستقبل کےحوالے سے خدشات کا شکار ہیں انہیں خدشہ ہےکہ پارٹی اور حکومتی اتحاد کا بھی وہی حشر نہ ہو جو قاف لیگ کا ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی سرپرستی کے خاتمے اور اقتدارسےرخصتی کے بعد ہوا تھا۔

خود وزیراعظم اور حکومتی زعماء مہنگائی ، بے روزگاری اور بڑھتی غربت سے سخت پریشان اور اسے اپنابڑا حریف سمجھتےہیں مگر ان بحرانوں سے جلد یا بدیر چھٹکارے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی جا رہی۔نتیجتاً عوام اب بڑی حد تک گھبرا چکے ہیں اس کی ایک جھلک ملک بھر کےدرجن بھر حلقوں میں ضمنی انتخابات میں شکست سے بھی عیاں ہوتی ہےحالانکہ بالعموم ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدوار ہی کامیاب ہونے کی تاریخ رہی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی مسلسل ناکامیوں کے درمیان ایک بات بہت حد تک واضح ہوچکی ہےکہ اب سب2023کے انتخابات کی تیاری کے Mode میں جانے کا اصولی فیصلہ کرچکے ہیں،لانگ مارچ ہوگا بھی تو وہ حکومت گرانے کےلئے کم اور حکومت کی بدترین پرفارمنس پر تنقید اور اسے مزید Exposeکرنے کےلئےہوگا۔تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بالخصوص وزیراعظم بننے کے خواہشمندوں کیلئےایک بات بہت اہم ہےکہ اقتدار کی جنگ اور محض سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر عوام کے حالات بہتر بنانے کی باقاعدہ اور منظم تیاری کا فوری آغاز نہ کیا گیا توعوام کا جمہوریت پر سےاعتماد ضرور اٹھ جائےگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔