20 اپریل ، 2021
سپریم کورٹ نے نظر ثانی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوالوں کے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اہلیہ سرینا عیسیٰ عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا مسز عیسیٰ آپ سے درخواست ہے کہ کم سے کم وقت میں دلائل مکمل کریں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صرف یہ بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 20 جون 2020کے فیصلے میں کیا غلطی تھی؟
سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کل بینچ نے ایف بی آر کی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئی خفیہ رپورٹ ہمیں دینےکی ہدایت کی، آرڈر کے باوجود خفیہ رپورٹ ہمیں موصول نہیں ہوئی، میرے ٹیکس معاملات ذاتی ہیں، میرے شوہر سے بھی خفیہ ہیں، میرے ذاتی ٹیکس معاملات پر مبنی ایف بی آر کی رپورٹ تمام ججز نے پڑھی، ایف بی آر کا میرے ٹیکس معاملات کی رپورٹ میرے علم میں لائے بغیر رپورٹ جمع کروانا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو سال سے میری زندگی ٹاک شوز میں زیر بحث ہے، فواد چوہدری، شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان اور ٹی وی چینل نے میری نجی زندگی پبلک کی، ایک اخبار نے ایف بی آر رپورٹ کے آدھے سچ شائع کیے جو ان کو غیر قانونی طور پر دیے گئے، میں 2 سال میں ہزار بار مر چکی ہوں، مزید مشکلات میں نا ڈالا جائے۔
اہلیہ جسٹس فائز نے کہا کہ میرے شوہر کو ایف بی آر نے طلب نہیں کیا نا مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے بلایا، ایف بی آر چیئرمین کا رپورٹ پیش کرنا غیر قانونی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو درخواست کرنے پر عدالت میں جمع خفیہ رپورٹ نہیں دی جا سکتی، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں نے رپورٹ کے لیے درخواست نہیں کی، عدالت نے خود دینے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کا مجھے ایف بی آر بھیجنے کا حکم درست نہیں تھا، میں نے 18 جون 2020 کو ٹیکس، پیسے ٹرانسفر کی تمام تفصیلات عدالت میں جمع کروائیں، عدالت نے فیصلہ کرتے وقت میری دستاویزات کا درست جائزہ نہیں لیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینا عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کراچی کے اسکول کی آمدن اور کلفٹن سےکرائے کی رقم کو ایف بی آر نے نظرانداز کیا، آپ مرکزی مقدمے میں فریق نہیں تھیں، آپ نے خود پیش ہو کر کہا میں عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ یہ بات حقائق کے منافی ہے، فروغ نسیم عدالت میں آ کر جادوئی باتیں کرتے تھے، اب فروغ نسیم عدالت میں نہیں آتے، فروغ نسیم سچ کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے، فروغ نسیم کبھی سلائی مشینوں اور کبھی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیان پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہ کریں اور اپنی نشست پر جا کر بیٹھ جائیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ پہلی بار دلائل دے رہی ہیں اس لیے بینچ سوال پوچھ رہا ہے، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں بینچ کے سوالات لکھ لیتی ہوں پھر آخر میں جواب دوں گی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے سرینا عیسیٰ سے استفسار کیا کہ آپ نے بیرون ملک جعلی اکاؤنٹ نہیں کھولا؟ آپ نے ٹرسٹی اکاؤنٹ کا سہارا بھی نہیں لیا؟ آپ نے تمام رقوم کی منتقلی بینک کے ذریعے کی؟ پاکستان سے جو رقم باہر بھیجی وہ خریدی گئی جائیدادوں کی مالیت سے مطابقت رکھتی ہے؟
فاضل جج نے مزید کہا کہ آپ نے وضاحت 5 اگست 2009 کے بعد سے دینی ہے، 5 اگست 2009 کو آپ کے شوہر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنے تھے، 2009 کے بعد 2 جائیدادوں پر سوالیہ نشان ہے، 2009 سے پہلے آپ کے شوہر پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، ہمیں یہ بھی علم ہے آپ مالی طور پر پہلے سے مستحکم ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ پُر اعتماد انداز میں دلائل دیں، ہم فیصلے میں غیرقانونی اور غیرآئینی نکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ عدالت کا بنیادی سوال ہے کہ ریفرنس ایف بی آر بھیجنے سے قبل آپ کو سننا کیوں ضروری تھا؟
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ 19 جون 2020 کا فیصلہ حنیف عباسی بنام عمران خان کے حکم کے منافی ہے، آرٹیکل 19 اے فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اپنا 19 جون 2020 کا عدالت میں دیا گیا بیان دیکھیں، آپ کو سنا گیا تھا، اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ آپ کو موقع نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کروائیں اس پر دلائل دیں جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے میں نے سوال کیا مجھے جواب دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ججز مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے، آپ عدالت آنا چاہتی تھیں لیکن آپ کے شوہر نہیں چاہتے تھے، آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنا مؤقف عدالت میں پیش کیا تھا۔
سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اپنے والد کی وجہ سے عدالت آئی تھی، سرینا عیسیٰ مرحوم والد کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا مقصد آپ کو اداس کرنا نہیں تھا۔
سرینا عیسیٰ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عمران خان نے آف شور کمپنی کو تسیلم کیا تھا، عمران خان کے لیے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں رکھا گیا، عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں میں نہیں، عمران خان آج وزیراعظم ہیں اور میں ایک عام شہری ہوں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کو کافی سن لیا ہے، آپ بیٹھ جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کہا کہ جج بننے سے قبل 31 لاکھ ماہانہ کماتا تھا، حکومت کے مطابق تو آج بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوں، میرے کیس میں ایک نہیں تین سوموٹو نوٹس لیے گئے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بنیادی نکتہ ہے کہ آپ کو سماعت کا موقع نہیں ملا، عدالت میں دیا گیا اپنا بیان نہیں پڑھیں گے تو منفی تاثر جائے گا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگرعدالت سمجھتی ہے کہ باضابطہ سماعت ہوئی تو ٹھیک ہے، میری اہلیہ اپنے بیان سے نہیں مکر رہیں، عدالت سرینا عیسیٰ کی بات سے متفق نہیں تو درخواست خارج کر دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل آپ کی بیویاں بھی یہاں کھڑی ہو سکتی ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی سائل سے قانون کا لیکچر نہیں لے سکتے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جج اور ججز کے خاندان کے بارےمیں کوئی دھوکا نہیں ہونا چاہیے، اس کیس میں 3 ازخود نوٹس ہوئے، ایک ازخود نوٹس سپریم کورٹ، ایک سپریم جوڈیشل کونسل اور ایک ایف بی آر نے لیا، ازخود نوٹس مفاد عامہ کے معاملات پر لیے جاتے ہیں، اس میں کون سا مفاد تھا؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ بس یہ بتا دیں کہ ایف بی آر کو ریفرنس بھیجنا کیسے غیر قانونی تھا؟ ان سوالات پر آپ کو یا کسی کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں تکلیف ہے کہ سرینا عیسیٰ کو سوالوں سے ضرر پہنچا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان میں سے ہیں جنہوں نے ملک بنایا، ملک کے لیے جان بھی دیں گے، میں اپنی ذات پر نہیں ملک کے لیے جذباتی ہوتا ہوں، میں آخری مجاہد ہوں گا جو اس ادارے اور ملک کے لیے لڑتا رہوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر شہزاد اکبر کی ملکیت ہے، ایف بی آر کی تحقیقات بدنیتی پر مبنی ہیں، صدر صاحب نے عبدالوحید ڈوگر کی بات پر انحصار کر کے ریفرنس بھیجا، فیض آباد دھرنے میں جو فیصلہ دیا اس پرعمل ہوتا تو آج یہ نا ہوتا، 12 مئی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوئی ہوتی تو آج وہ دبئی نا بیٹھا ہوتا، آپ اگر دستاویزات پر انحصار کرنا نہیں چاہتے تو آپ کی مرضی ہے، اللہ مجھے غرق کرے اگر میں اس کرسی کا خواہشمند ہوں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ سوالات سے رنجیدہ ہو رہے ہیں، آپ کی باتیں قبول کرنے کے لیے ہمیں قانونی راستہ چاہیے، سرینا عیسیٰ نے بہت ٹھوس باتیں کیں، اگر آپ کو اس معاملے سے خود کو نکالنا ہے تو قانونی نکتے پر دلائل دیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بھی جج بنے تو اہلیہ سے پوچھ لے مجھ پر جو عذاب گزریں گے اس کے لیے تیار ہو، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ صرف 3 سوالوں کےجواب دےدیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے تین سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ کیا جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کے لیے جو رقم باہر بھیجی کیا جسٹس فائز عیسیٰ کا اس سےکوئی قانونی تعلق نہیں؟ کیا جائیداد کی خریداری کے لیے جو اخراجات کیے ان کا جسٹس فائز عیسیٰ سےکوئی تعلق نہیں؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں ہر روز یہ آیت پڑھتا ہوں کہ مجھ سےکوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے، آپ نے یہاں اتنی باتیں سنائیں، ہم نے سنیں، آپ اس سب کو درگزر کریں، میں بھی جذباتی ہو سکتا ہوں لیکن نہیں ہو رہا، ہم ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔
فاضل جج کا کہنا تھا کہ جو محبت آپ سے ہے اس کا اظہار عدالت میں نہیں کر سکتے، آپ کو، حکومت کو جو بھی کہنا ہے عدالت سے باہر کہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم چیلنج کیا ہے، عدالتی حکم برقرار رہا تو آپ کی ایف بی آر سے شکایات متعلقہ فورم پر ہو گی۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، جسٹس فائز عیسیٰ کل عدالتی سوالات کے جوابات دیں گے۔