بلاگ
Time 25 اپریل ، 2021

کورونا کی وحشت خیزیاں

فوٹوفائل

کورونا کی وبا نے ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں جو تباہی پھیلائی ہے وہ نہ صرف خوفناک بلکہ سبق آموز بھی ہے۔ انڈیا کو اس وقت آکسیجن اور اسپتالوں میں بیڈز کی کمی کا سامنا ہے، لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں، میدان شمشان گھاٹ بن چکے ہیں اور بیماروں کے ساتھ آئے ورثااسپتالوں کے کوریڈورز میں چلا چلا کر علاج کیلئے پکار رہے ہیں۔

ہر طرف قیامتِ صغریٰ کے مناظر ہیں۔ پاکستان میں جو کورونا کے حالات ہیں وہ بھی دن بہ دن شدت اختیار کر رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے باوجود عوام کی جانب سے لاپروائی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ تشویشناک ہے۔

اگر عوام اسی طرح بغیر احتیاط کے بازاروں میں پھرتے رہے اور سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال نہ رکھا گیا تو انڈیا جیسے حالات ہونے میں خدانخواستہ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ عوام کو اس وقت حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔

مشکل کی اس گھڑی میں ایدھی صاحب کے بیٹے نے اپنے ایدھی ہونے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بین الاقوامی ہونے کی مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو خط لکھا ہے جس میں ادارے کی جانب سے انڈیا کو مفت ایمبولینس سروس فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔

خط میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کو کسی قسم کی مالی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی، سوائے ضروری اجازت ناموں کے۔ پاکستان کی جانب سے ہمسایہ ملک جس کے ساتھ ہمارے حالات عمومی طور پر کشیدہ ہی رہے ہیں، اس ہمدردانہ پیش کش اور انسانیت کے جذبے کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔

دوسری جانب بھارت میں پولیس نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان کے مبارک مہینے میں خدا سے کورونا کے خاتمے کی دعا کریں کیونکہ رمضان میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ بھارت کی موجودہ صورتحال میں یہ دونوں خبریں انٹرنیٹ کی جہاں زینت بنی ہیں وہاں بھارت کے موجودہ حالات ہمارے لئے وارننگ بھی ہیں۔ عوام کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

جہاں عوام کی سنجیدگی کی بات آتی ہے وہاں حکومت کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل بھی عار محسوس نہیں ہوتی کہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے کورونا کی صورتحال کے پیش نظر جو فیصلے کیے ہیں وہ انتہائی مشکل تھے۔ 2020کے آغاز سے جب یہ امتحان شروع ہوا تو وبا سے بچاؤکے ساتھ ساتھ بھوک سے بچاؤ بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کے تعاون سے کورونا کا پھیلاؤ روکا جاسکے تاکہ کاروبار بند نہ ہو اور لوگوں کیلیے روزی کمانے کے راستے کھلے رہیں۔

اس وبا کے دوران حکومت نے نہ صرف صنعت اور تعمیراتی شعبے کیلئے مراعات دی ہیں بلکہ ترقیاتی کاموں میں کمی بھی نہیں آنے دی۔ تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور حکومت دونوں محاذوں پر سرخرو ہو سکے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جمعہ کے روز وزیر اعظم کے ہمراہ مری کا دورہ کیا اور مری کیلئے 7 ارب 80کروڑ روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبہ کے سیاحتی مقامات کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔

نہ صرف مری کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جارہا ہے بلکہ کوٹلی ستیاں اور دیگر سیاحتی مقامات کو ڈویلپ بھی کیا جارہا ہے تاکہ لوکل عوام اور سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ تفریحی مقامات میسر ہوں اور ایک ہی اسپاٹ پر اس کی کیپسٹی سے زیادہ رش بڑھنے کی وجہ سے ہونے والی بد نظمی سے بچا جا سکے۔

دورہ مری کے دوران 113کروڑ روپے سے زائد کی رقم سے جدید طرز کی کوہسار یونیورسٹی اور اسٹڈی سینٹر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ تحصیل کہوٹہ، کوٹلی ستیاں اور کلر سیداں میں گرلز اور بوائز کالجز کی اپ گریڈیشن کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔

صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کیلئے کہوٹہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال میں ایمرجنسی بلاک کی اپ گریڈیشن، اسمبلی سینی ٹوریم کی اپ گریڈینگ، ڈائلیسز سینٹر اور ٹراما سینٹر بھی قائم کیے جارہے ہیں۔

یہاں ٹورسٹ ہائی وے کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے اور جھینگا گلی میں پارکنگ پلازہ بنایا جارہا ہے تاکہ روڈ سائڈ پارکنگ سے آنے والے سیاحوں کو گزرنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

علاقے کی ترقی کیلئے نئی تعمیرات پر عائد پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے۔ مری کے دورے کے اگلے روز ہی وزیر اعلیٰ پنجاب تونسہ اور کوہ سلیمان کی تحصیلوں کے ایک روزہ دورے پر ڈیرہ غازی خان پہنچے۔ ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والے منصوبوں کا افتتاح کیا گیا۔

کوہ سلیمان کو بھی بطور سیاحتی مقام ڈویلپ کیا جارہا ہے تاکہ جنوبی پنجاب میں بھی سیاحت کو فروغ دیا جاسکے۔

دورہ تونسہ میں سوا ارب روپے کی لاگت سے 6 میگا منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس میں سوشل سکیورٹی اسپتال اور دیگر روڈ انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔

حکومت تو کورونا سے متاثر ہونے والی معاشی صورتحال کے باوجود ترقیاتی کاموں پر بھرپور توجہ دے رہی تاکہ کسی بھی صورت میں ملک میں معاشی ترقی کا پہیہ جام نہ ہو، اب عوام کوچاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائیں تاکہ معیشت کا پہیہ بھی رواں رہے اور حکومت بھی صوبائی اور قومی گروتھ کیلیے اٹھائے گئے ٹھوس اقدامات جاری رکھ سکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔