بھٹو سے پی پی پی کی غداری

فوٹوفائل

پورا پاکستان، چاہے وہ وفاق ہو، پنجاب ہو، بلوچستان ہو، خیبر پختون خوا ہو یا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہو، سب اِس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ آنے والے اگست کے مہینہ سے شروع ہونے والے تعلیمی سال سے یکم سے پانچویں جماعت تک کے مسلمان بچوں کو چاہے اُن کا تعلق سرکاری اسکول سے ہو یا پرائیویٹ اسکول سے، کو لازمی قرآن پاک پڑھایا جائے گا۔ 

اگر کوئی صوبہ یا کسی صوبائی حکومت نے اِس بارے میں فیصلہ نہیں کیا یا وہ ابھی تک ایسا کرنے سے گریزاں ہے تو وہ صرف اور صرف صوبہ سندھ ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو اپنے آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کا وارث مانتی ہے۔ وفاق سمیت اکثر صوبائی اور علاقائی حکومتوں کی طرف سے اِس بارے میں قانون سازی بھی ہو چکی ہے اور جہاں قانون پاس نہیں ہوا وہاں کی حکومتوں نے انتظامی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ پرائمری تک نئے شروع ہونے والے تعلیمی سال سے مسلمان طلبہ کو قرآن پاک لازمی پڑھایا جائے گا۔

 بلاول بھٹو اور آج کی پیپلز پارٹی اپنے آپ کو سیکولر اور Left کی سیاسی پارٹی کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کا نہ صرف بار بار نام لیتے ہیں بلکہ بلاول زرداری نے انہی وجوہات کی بنا پر اپنا نام بلاول بھٹو زرداری بھی رکھا۔ بھٹو کی پہچان تو اُنہیں محض اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے عزیز ہے، وہ اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو کا بار بار نام بھی لیتے ہیں لیکن اس مسئلہ پر بلاول اور آج کی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

 بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے گئے اسلامی آئین، جس پر بھٹو صاحب بہت فخر کیا کرتے تھے، کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ پہلے ذرا آئین کی بات کر لیتے ہیں اور آئین بھی وہ جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آئین پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

 ویسے تو بلاول اور پاکستان کا سیکولر طبقہ بھی بار بار آئین اور آئین کی عملداری کی بات کرتا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی اور اُس کی سندھ حکومت کیوں اپنے صوبہ کے مسلمان بچوں کو اسکول میں قرآن پاک پڑھانے کے لیے تیار نہیں جبکہ بھٹو صاحب کے بنائے گئے آئین کی شق 31(2)کے مطابق ریاست مسلمانوں کو قرآن پاک اور اسلامیات لازمی پڑھائے گی جبکہ عربی زبان سکھانے کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

آئین کی شق 31کے مطابق ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے کہ پاکستان میں رہنے والے مسلمان اپنی انفرادی اور اجتمائی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزار سکیں اور اس قابل ہوں کہ وہ مقصد حیات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق سمجھ سکیں۔ آئین میں اِس بارے میں کیا لکھا ہے، قارئین خود پڑھ لیں:

31. Islamic Way of Life.

(1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2) The state shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan:- (a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of Holy Quran;..."

چلیں اگر بلاول بھٹو صاحب آئین کو نہیں مانتے تو کم از کم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقاریر ہی سن لیں جن میں وہ اس بات پر بار بار فخر کرتے دکھائی دیے کہ اُنہوں نے اس ملک کو اسلامی آئین دیا، یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔

 بھٹو صاحب نے اس بات پر بھی فخر کا اظہار کیا کہ اُنہوں نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے کر ایک پرانا مسئلہ حل کر دیا۔ 1973کے آئین کو پاس کرتے وقت اسمبلی میں اپنے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے اس آئین میں کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے مقابلے میں زیادہ اسلامی شقیں ہیں اور یہ بھی کہ پاکستان کے ماضی کی آئینی دستاویزات کے مقابلہ میں 1973کے آئین میں زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ 

بھٹو کے وارث بھٹو کے آئین کی اسلامی شقوں کو بھی بھول گئے اور بھٹو کی باتوں کو بھی۔ اب یہ سندھ کے عوام، عدلیہ، پارلیمنٹ اور دوسرے متعلقین کی ذمہ داری ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی اور اُس کے سربراہ بلاول بھٹو کو یاد دلائیں کہ بھٹو نے کیا کہا تھا، بھٹو نے آئین پاکستان میں کیا وعدے کیے تھے اور اُنہیں یہ باور کروائیں کہ اگر وہ سندھ کے اسکولوں میں مسلمان بچوں کو لازمی قرآن پڑھانے کے اقدامات نہیں کرتے تو یہ بھٹو سے غداری اور آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔