05 مئی ، 2021
مولانا طارق جمیل عہدِ حاضر کے بہت بڑے عالمِ دین ہیں، واعظ ہیں، مبلغ ہیں، خطیب ہیں۔ اﷲ نے اِن کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے، آپ کا حافظہ قابلِ رشک ہے، سینکڑوں آیتیں، احادیث اور روایتیں آپ کو ازبر ہیں، تقریر کرتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں، ایسی فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ بندہ مبہوت ہو جاتا ہے۔ اکثر اپنی تقاریر میں حور کا سراپا بیان کرتے ہیں تو مردوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں آپ کے پرستار پھیلے ہیں، مولانا کہیں بھی چلے جائیں لوگ دیوانوں کی طرح اُن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں، اُن سے ہاتھ ملانے کو خوش بختی سمجھتے ہیں اور میزبانی کے لئے دل و جان سے حاضر رہتے ہیں۔ عام طور سے ایسی شہرت اور پذیرائی فلمی ستاروں کو ملتی ہے مگر اسے مولانا کی شخصیت کی کشش ہی کہیے کہ فلمی ستارے بھی مولانا سے ملاقات کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مولانا کو اگر اپنی قسمت خود لکھنے کا اختیار ہوتا تو بھی وہ ایسی نہ لکھ پاتے جیسی خوش نصیبی ا ﷲ نے انہیں عطا کی ہے۔ حال ہی میں مولانا نے اپنے نام سے کپڑوں کا ایک ’برانڈ لانچ‘ کیا ہے جس کا بہت شاندار افتتاح ہوا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اِس کاروبار سے ہونے والی آمدنی کو مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ جیسی قسمت مولانا نے پائی ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ مولانا کا یہ برانڈ، ان شاءا ﷲ، کامیاب ہوگا اور بہت جلد اِس کی شاخیں ملک کے دیگر شہروں میں بھی کھل جائیں گے۔ میری نیک تمنائیں مولانا کے ساتھ ہیں۔
کاروبار کرنا سنتِ رسولﷺ ہے، ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جائز طریقے سے روزی کمائے لیکن کیا فیشن کا کاروبار کرنا مولانا جیسے جید عالمِ دین کے لئے مناسب ہے؟ مولانا طارق جمیل اگر کوئی پیٹرول پمپ کھولتے یا ٹائروں کی دکان شروع کرتے یا کسی میڈیکل اسٹور میں اپنا حصہ ڈالتے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر جو کاروبار مولانا نے شروع کیا ہے اُس کا تعلق براہ راست فیشن انڈسٹری سے ہے اور یہ پورا ایک لائف اسٹائل ہے جو دین کی اُس تعبیر سے بالکل مختلف ہے جس کی تبلیغ مولانا اپنی تقاریر میں کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی فیشن انڈسٹری ایک خاص فلسفے پر کھڑی ہے اور یہ فلسفہ شخصی آزادی، صارفیت (Consumersim)، ذات کی تشہیر، خود نمائی اور ایک خاص قسم کے ’باڈی امیج‘ کی ترویج کرتا ہے۔ اِس میں سادگی، تقویٰ اور قناعت جیسے اعلیٰ تصورات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِس میں بندے کی اپنی ذات اہم ہے، اُس کی سیلفی، اُس کا سکون، اُس کا انسٹا گرام، اُ س کی انفرادیت اور اُس کی پسند ہر چیز پر مقدم ہے۔ اس میں فرد اہم ہے، معاشرہ اہم نہیں۔
یہ فرد کی خود نمائی کا ایک پورا پیکج ہے جو مذہب سے متصادم ہے اور ایک الگ طرح کی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے جس میں چیزیں ضرورت کے تحت نہیں بلکہ بلاضرورت خریدی جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ کپڑا انسان کی ضرورت ہے، اچھا لباس پہننا چاہیے، اسلام میں اِس کی ممانعت نہیں مگر جس کاروبار میں مولانا نے ہاتھ ڈالا ہے وہ کپڑوں کا نہیں فیشن کا کاروبار ہے اور یہ کاروبار ضرورت کے ماڈل پر نہیں اسراف کے ماڈل پر کھڑا ہے ورنہ اچھے کپڑے تو لوگ ہر زمانے میں پہنتے تھے۔ جن لوگوں کو اِس میں کوئی شبہ ہو وہ مولانا کی ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں، وہاں خواتین کے فیشن ایبل ملبوسات French Floral، Tudor Times، Sepia کے ناموں سے دستیاب ہیں۔
مولانا کی ویب سائٹ کسی بھی دوسری فیشن آؤٹ لٹ سے مختلف نہیں۔ وہی پٹرول پمپ والی مثال کہ مولانا اگر پٹرول پمپ کھولتے تو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی کیونکہ کوئی شخص شوقیہ پیٹرول خریدنے نہیں آتا ضرورتاً آتا ہے، دوائیوں کا کاروبار بھی ٹھیک تھا کہ کوئی محض اِس لئے دوائی خریدنے نہیں پہنچ جاتا کہ اُس کی جیب میں نوٹ مچل رہے ہوتے ہیں بلکہ صرف بیمار ہونے کی صورت میں خریدتا ہے جبکہ فیشن کے کپڑے ضرورتاً نہیں خریدے جاتے Consumerism کے زیر اثر خریدے جاتے ہیں۔ ضرورت کے لئے تھان سے کپڑا اتروا کردرزی کو کہا جاتا ہے کہ بھائی دو سوٹ بنا دینا۔
مولانا جعفر شاہ پھلواروی ایک جید عالمِ دین گزرے ہیں، اُن کی کتا ب ’اسلام اور موسیقی‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اِس کتاب میں انہوں نے قرآن اور احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں موسیقی کی ممانعت نہیں۔ بہت سے علما اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے لیکن یہ موضوع بحث نہیں۔
فرض کریں کہ مولانا پھلواروی، جو موسیقی کو جائز سمجھتے ہیں، طبلے سارنگی کی کوئی دکان شروع کر لیتے یا موسیقی سکھانے کا کوئی اسکول کھول لیتے تو اُن کی اپنی تعلیمات کے منافی نہ ہونے کے باوجود کیا یہ کاروباراُن کے لئے مناسب ہوتا؟ (اِس مثال کا مقصد موسیقی سے وابستہ افراد کی بےتوقیری ہر گز نہیں) بس یہی دلیل مولانا طارق جمیل کے باب میں بھی ہے، انہیں کوئی ایسا کاروبار کرنا چاہیے تھا جو اُن کی تعبیرِ دین کے منافی نہ ہوتا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مولانا طارق جمیل کو فیشن سمیت ہر جائز کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے، اِس ضمن میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں بلکہ میرے جیسا گناہ گار آدمی تو سب سے پہلے اُن کا گاہک بنے گا کہ میں تو دنیا دار ہوں۔ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ اُن جیسے عالمِ دین کے لئے فیشن کا کاروبار مناسب نہیں تھا، وہ تو ہمیں تقویٰ اور سادگی کا درس دیتے تھے، اب اُن کی بات مانیں یا اُن کے برانڈڈ کپڑے خریدیں!
مولانا کی یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ وہ اپنے کاروبار کی آمدن کو مدارس کے طلبا کے لئے وقف کریں گے مگر اِس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’ہمدرد فاؤنڈیشن‘ کی طرز پر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک ٹرسٹ بنائیں اور ہر سال تمام کھاتے اپنی ویب سائٹ پر ظاہر کریں۔
مولانا کی دیانت میں کوئی شبہ نہیں مگر وقف کرنے کا درست طریقہ یہی ہے۔ بصورت دیگر آمدنی وقف کرنے کا یہ دعویٰ اُن کمپنیوں سے مختلف نہیں ہوگا جو سارا سال نفع کمانے کے بعد ایک آدھ فیصد Corporate Social Responsibilityکے نام پر خرچ دیتی ہیں جو اصل میں کمپنی کا مثبت تاثر قائم رکھنے کا خرچہ ہوتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔