Time 10 مئی ، 2021
بلاگ

خاموش صحافی، سویا ہوا پیمرا

پیمرا نے حال ہی میں ٹی وی چینلز کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے متعلق خبروں کو ذرائع کے حوالے سے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ 

کچھ معلوم نہیں لیکن پیمرا نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ انتہائی نا اہل ادارہ ہے جسے ویسے تو ٹی وی چینلز کو آئین و قانون کے تحت چلانے کے لیے ریگو لیٹر کے طور پر بنایا گیا تھا لیکن اُس نے ثابت کیا کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل ناکام رہا اور ٹی وی چینل کے ذریعے معاشرہ میں پھیلائے جانے والے بگاڑ کا اصل ذمہ دار ہے۔

 پیمرا کو خرابی صرف وہاں اور اُس وقت نظر آتی ہے جب کسی طاقت ور کی طرف سے اُسے کہا جاتا ہے کہ اُس طاقت ور کی نظر میں کیا غلط ہو رہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ دن رات جو کچھ ٹی وی چینلز پر چلتا ہے اُس کا اگر آئین و قانون کے تحت جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ پیمرا نام کا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں کیوں کہ اگر کوئی ریگولیٹر ہوتا تو جو مادر پدر آزادی، جو جھوٹ فراڈ کا دھندہ، جس قسم کی بےہودگی اور بےشرمی کا ہمارے ٹی وی چینلز پر راج ہے، وہ نظر نہ آتا۔ 

یہاں تو رمضان مبارک کے مقدس اور اس بابرکت مہینے کے نام پر جاری ٹرانسمیشنز میں وہ وہ کچھ دکھایا جاتا ہے کہ دیکھنے والے شرمندہ ہو جاتے ہیں لیکن پیمرا یہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ ایک طرف پیمرا ہے جو ایسی خرابیاں دیکھنے سننے اور اُن کے خلاف بولنے کی حس سے مکمل طور پر عاری ہے تو دوسری طرف میڈیا سے تعلق رکھنے والی خاموش اکثریت ان خرابیوں اور بیہودگیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ رائے کے نام پر یہاں ایک ایسا تماشا جاری ہے جس کی آئین و قانون کے تحت کوئی گنجائش نہیں۔ 

اگر کسی طاقت ور ادارے یا کسی طاقت ور شخص کے متعلق کوئی ڈاکومینٹڈ خبر ہے اور ٹی وی چینلز کے پاس تمام متعلقہ پارٹیوں کے Versionsبھی موجود ہیں تو یہ خبر چینلز پر نشر نہیں ہوگی کیوں کہ یا تو چینلز کا مالی مفاد اس سے وابستہ ہو گا یا پھر کوئی طاقت ور پیمرا کو فون کرکے ایسی خبر چلانے والے ٹی وی چینلز کو کیبل پر سے یا تو غائب کر دے گا یا پھر اتنا پیچھے پھینک دے گا کہ کوئی اُس چینل کو دیکھ ہی نہ سکے۔ 

میڈیا کی اس بےبسی کے باوجود میڈیا ہی کو کھلی چھٹی ہے بلکہ اُس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ جھوٹ بولے، جھوٹی خبریں چلائے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالے اور یہ سب کچھ ہمارے ٹی وی چینلز پر عام ہو رہا ہے لیکن شرط صرف یہ ہے کہ جن کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہوں، جن کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہو اُن کا تعلق اُس طبقہ سے نہ ہو جو طاقت ور کی تعریف میں آتا ہے۔ پیمرا کو یہ سب نظر نہیں آتا۔

 افسوس کہ صحافیوں کی تنظیمیں، ٹی وی چینلز کے مالکان اور پروفیشنلز کی متعلقہ Bodiesاس غیر ذمہ دارانہ صحافت پر کچھ نہیں بولتیں۔ مجھے زیادہ تکلیف ٹی وی چینلز کی اُس نام نہاد آزادیٔ رائے اور آزدیٔ صحافت کے نام پر دکھائے جانے والے مواد سے ہے جس کو ٹی وی چینلز کے مالکان اور پروفیشلنز کی متعلقہ تنظیمیں بھی بُرا نہیں جانتی کیوں کہ ریٹنگز آ رہی ہوتی ہیں، پیسہ بن رہا ہوتا ہے۔ 

باقی کسی کو کیا فکر کیا جو بےہودگی اور بےشرمی ٹی وی چینلز کے ڈراموں، اشتہارات اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر معاشرے میں پھیلائی جا رہی ہے، جو کچھ رمضان کے دوران خصوصی ٹرانسمیشن میں دکھایا جاتا ہے اور جن جن انتہائی متنازعہ افراد کو چن چن کے اس لیے ان ٹرانسمیشنز میں شامل کیا جاتا ہے کہ اُن کے پروگرام ہٹ ہوں، چاہے اس سے دین کا مذاق ہی کیوں نہ اڑے اور دیکھنے والے انٹرٹینمنٹ کے نام پر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عبادات تک سے دور ہی کیوں نہ ہو رہے ہوں۔

 میں نے مختلف حکومتوں کے دوران دیکھا کہ پیمرا ٹی وی چینلز کو اس قسم کے مواد کو نشر کرنے سے روکنے میں نہ کبھی سنجیدہ رہا اور نہ ہی اُس نے اس بارے میں کوئی کوشش کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج محترم جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے فیصلوں میں رمضان ٹرانسمیشنز اور ٹی وی چینلز میں دکھائی جانے والی بےشرمی و بےہودگی کو روکنے کے لیے فیصلہ دیا، ہدایات جاری کیں لیکن جب پیمرا اور حکومتیں ہی ان خرابیوں کو روکنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ایک اکیلے جج کے فیصلوں پر کون عمل درآمد کروائے گا۔ 

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک طرف میڈیا اور ٹی وی چینلز اگر ’’ڈنڈے‘‘ والوں سے ڈرتے ہیں تو دوسری طرف ان چینلز نے سیاستدانوں، سرکاری افسران اور دوسرے طبقوں کو اس قدر ڈرایا ہوا ہے کہ کوئی ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی بےہودگی اور بےشرمی کے خلاف بات نہیں کرتا کیوں کہ اگر کوئی اس پر بات کرے تو سب اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

 اس صورتحال میں میری میڈیا میں موجود اُس خاموش اکثریت سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا کی خرابی اور معاشرہ کو خراب کرنے کے اس عمل کے خلاف آواز اُٹھائے تا کہ دوسرو ں کو بھی حوصلہ ملے اور بحیثیت قوم ہم میں اگر کچھ اچھا، بچا کچا رہ گیا ہے وہ بھی تباہ و برباد نہ ہو جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔