23 مئی ، 2021
غزہ میں اب سیز فائر ہوچکا ہے لیکن ان گیارہ دنوں میں اسرائیل کے لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے رہائشی آبادیوں اور عمارتوں پر خوفناک بمباری کی جس میں250کے لگ بھگ فلسطینی شہید اورہزاروں زخمی ہوئے۔
جواب میں حماس نے بھی اسرائیل پر راکٹوں سے حملے کیے تاکہ اسرائیل کے میزائل نظام کا توڑ کیا جا سکے۔معلوم ہوا ہے کہ مصر کی کوششوں سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہے ۔
اسرائیل نے جب سے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیا ہے اور امریکہ نے صدر ٹرمپ کے دور میں اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کی جو کارروائی کی،دُنیا بھر میں اس کی مخالفت ہوئی۔ یہ تازہ لڑائی کیا رُخ اختیار کرے گی اور یہیں سے ایک نئی مزاحمتی تحریک بھی جنم لے سکتی ہے، کیونکہ سابق امریکی صدر کے دور میں مسئلہ فلسطین کے حل کا دو ریاستی آپشن سرے سے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
حالانکہ سابق صدر کارٹر سمیت بہت سے ایسے امریکی مدبرین ہیں،جنہوں نے سالہا سال تک اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ فلسطین کی آزاد ریاست کے بغیر اسرائیل میں امن نہیں ہو سکتا، اِس لیے امن کی خاطر اسرائیل یہ حل قبول کر لے،لیکن اسرائیلی قیادت نے صدر ٹرمپ کے یہودی داماد کے ذریعے انہیں قائل کیا کہ دو ریاستی حل بھی امن کی ضمانت نہیں،چنانچہ وہ امن اسرائیلی حدود کے اندر تلاش کرنے لگے،جو وہاں دستیاب ہی نہیں تھا۔
اسرائیل نے اپنی توسیع پسندی کا سلسلہ ترک نہیں کیا اور اقوام متحدہ نے جن فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیاں آباد کرنے سے روکا، اسرائیل نے وہاں آباد کاری کا سلسلہ بدستور جاری رکھا اور فلسطینیوں کو ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور کر کے رکھ دیا ، 52برس پہلے اسرائیل نے مسجد ِ اقصیٰ پر قبضہ کر لیا تھا اور2 روز پہلے جب اس قبضے کا جشن منایا جا رہا تھا تو مسجد ِ اقصیٰ کے ایک حصے میں آگ لگی ہوئی تھی۔
اسرائیلی وحشت و درندگی کے مقابلے میں عالم ِ اسلام میں ایک طرح کی بے حسی نظر آتی ہے، بہت سے اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور تازہ تازہ دوستی کے اس خمار کی وجہ سے وہ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت بھی نہیں کر سکتے۔اسرائیل نے طویل غور کے بعد ہی ’’صلح جوئی‘‘ کا یہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ اسرائیل جب غزہ کے علاقے میں مزید یہودی بستیاں بسانے کے منصوبے کو آگے بڑھائے تو اِن ممالک کی طرف سے زبانی کلامی مذمت بھی نہ ہو،تاہم اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے توانا آواز ترک صدر رجب طیب اردوان کی سنائی دی ہے۔
ترکی اگرچہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اولین مسلمان ملک تھا اور اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی اُس وقت کے کئی یہودی رہنما ترکی میں مقیم رہے تھے،لیکن اردوان کے دور میں ہمیشہ کھل کر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی۔ چند برس قبل جب اسرائیل نے غزہ کی بحری ناکہ بندی کر رکھی تھی،تو ترکی نے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے بحری جہاز کے ذریعے اشیائےخورونوش اور ادویات وغیرہ غزہ روانہ کی تھیں۔
اسرائیل نے یہ اشیا غزہ تو پہنچنے نہ دیں، لیکن ترکی نے بتا دیا کہ وہ اسرائیلی مظالم کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔انہوں نے تازہ اسرائیلی جارحیت پر اپنے ایک جذباتی خطاب میں کہا کہ اگر آج بیت المقدس کی دیواریں گرتی ہیں تو اسلام آباد، استنبول، جکارتہ اور بغداد سمیت پوری مسلم دُنیا کی دیواریں گر جائیں گی۔
اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی بھی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔اسرائیلی ریاست کے حملوں پر خاموش رہنے والا ہر کوئی ظلم میں برابر کا شریک ہے۔مَیں تمام دُنیا خصوصاً اسلامی ممالک کو حملوں کے مقابل موثر حکمت ِ عملی اپنانے کی دعوت دیتا ہوں،مسلمان ممالک اور ان کے عوام کو آواز دے رہا ہوں کہ اسرائیل کے ان ظالمانہ اقدامات کو فی الفور روکنے کی کوشش کریں۔
ہم نے بطور ترک اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، ہم آج بھی القدس کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔اقوام متحدہ اور او آئی سی کو متحرک کرنے کے لئے ہم نے ضروری اقدامات شروع کر دیے ہیں۔اقوام متحدہ اگر اس ظلم کو نہیں روکتی تو پھر ہم اپنا لائحہ عمل تیار کریں گے۔
ترک صدر کی اس مجاہدانہ للکار پر عالم ِ اسلام کو کان دھرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل کو بھی خبردار رہنا چاہیے کہ اب اگر فلسطینیوں کی تحریک شروع ہوتی ہے تو فلسطینی غلیلوں سے نہیں، راکٹوں سے جوابی طور پر حملہ آور ہوں گے، اِس سے پہلے فلسطینیوں کو اُن کا حق لوٹانا پڑے گا ورنہ ظلم کا یہ سلسلہ جاری رکھنا مشکل تر ہو جائے گا۔ہم سب کو مل کر فلسطینی عوام کیلیے آواز بلند کرنی ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔