اسرائیل بمقابلہ فلسطین۔حقائق کیا ہیں؟

اسرائیل کا مقدمہ کیا ہے؟ اسرائیل کا مقدمہ یہ ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جسے امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، حماس کا نعرہ ’اسرائیل کی تباہی ‘ ہے۔

 حماس کی عملداری غزہ میں ہے جہاں اُس نے اسکولوں، اسپتالوں اور سول عمارتوں میں اپنے دفاتر اور اڈے قائم کر رکھے ہیں، یہاں سے حماس کے دہشت گرد اسرائیل کے شہری علاقوں پر راکٹ برساتے ہیں۔ اسرائیل کو مجبوراً اپنے دفاع میں کارروائی کرنی پڑتی ہے اور حماس کے اِن ٹھکانوں کو نشانہ بنانا پڑتا ہے۔ حماس چونکہ جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے اِس لئے اسرائیل کے حملوں میں بچے اور عورتیں بھی ہلاک ہوتے ہیں مگر اِس کی تمام تر ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔

 ثبوت اِس کا یہ ہے کہ حالیہ حملے بھی صرف حماس کے ٹھکانوں پر کیے گئے جو غزہ میں قائم ہیں جبکہ مغربی پٹی پر اسرائیل نے کوئی بمباری نہیں کی۔اسرائیل چونکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہے اِس لئے اسرائیل کو اپنی حفاظت کے لئے سیکورٹی حصار قائم رکھنا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

فلسطینیوں کا مقدمہ کیا ہے؟فلسطینیوں کا مقدمہ یہ ہے کہ اسرائیل اُن کی زمین اور بیت المقدس پر قابض ہے، اقوامِ متحدہ بھی فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی کہتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کوئی ریاست ہے اور نہ ہی اِس کی کوئی حیثیت، یہ اسرائیل کی ایک کالونی ہے جہاں اسرائیلی فوج کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، کسی قسم کی تجارت اور نقل و حرکت اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی، ایک طرح سے فلسطینی اسرائیل کے قیدی ہیں جن کے کوئی سیاسی حقوق نہیں۔

اِن حالات میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا اُن کا حق ہے، یہی حق حماس استعمال کرتا ہے جو دہشت گردی نہیں بلکہ حق خود ارادیت ہے۔حالیہ تنازعے میں اسرائیل نے غزہ کو بمباری کرکے کھنڈر بنا دیا، دنیا نے اپنی آنکھوں سے غزہ کی شہری عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا، بچوں کو اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرتے دیکھا۔اگر اسرائیل کے دس لوگ مرے تو فلسطین کے دو سو سے زائد جن میں ایک، دو، چار اور پانچ سال کے بچے بھی شامل تھے۔

حقائق کیا ہیں ؟دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے مسئلہ فلسطین اقوامِ متحدہ کے سپرد کر دیا تھا، اقوامِ متحدہ نے 1947میں فلسطین کو یوں تقسیم کیا کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیل کا قیام بھی عمل میں آ گیا مگر یہ تقسیم ایسی تھی کہ کہیں فلسطینی علاقہ تھا تو کہیں اسرائیلی اور اِن علاقوں کے ٹکڑے آپس میں گڈ مڈ تھے۔ تاہم دونوں ریاستیں رقبے میں تقریباً برابر تھیں۔

 سن 48میں عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھیڑ دی، اسرائیل جنگ جیت گیا اور نتیجے میں اُس نے فلسطین کے مزید ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر لیا۔67میں پھر عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اِس مرتبہ اسرائیل نے غزہ، مغربی پٹی، گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نما سنائی پر قبضہ کرکے تمام عرب ممالک کے کس بل نکال دیے۔ 

گویا 47 میں جن دو ریاستوں کا رقبہ برابر تھا، 67 میں اُس میں سے ایک ریاست کا وجود ہی ختم ہو گیا جبکہ دوسری ریاست اسرائیل کا رقبہ قبضے کے بعد دوگنا سے بھی بڑھ گیا۔ اقوامِ متحدہ پھر بیچ میں کودی اور ایک قرار داد میں یہ ’فیصلہ ‘دیا کہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقوں سے باہر نکل جائے جس پر اسرائیل نے عمل نہیں کیا۔آدھی دنیا کی نظر میں حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، مگر روس، چین اور ناروے اسے دہشت گرد نہیں کہتے۔

اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ اُس کی کارروائی کے نتیجے میں بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کی مکمل ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے، بے بنیاد ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کو ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حماس نے اسکولوں اور اسپتالوں میں اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ خود اسرائیلی اخبار ’ہا آرٹز‘ میں شائع ہونے والےایک مضمون میں بھی اسرائیلی کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 لیکن اِس بات کا سہرا اسرائیل کو جاتا ہے کہ اُس کی فوج کی کارروائی کے خلاف اسرائیلی اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں اور اُن پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ جہاں تک حماس کی بات ہے تو اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے میں حماس نے پہل کی جو سراسر حماقت تھی، جس کی قیمت بے گناہ فلسطینیوں کو چکانی پڑی۔

مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کیوں ہے؟ اِس لئے کہ اسرائیل انہیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے دفاع میں کرتا ہے۔ اسرائیل کے پاس ایک بیانیہ Anti Semitismکی شکل میں بھی موجود ہے،جہاں کہیں مسلمان اسرائیل کی بجائے لفظ یہودی استعمال کرکے تنقید کرتے ہیں، ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ 

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس طرح ہر مسلمان عرب نہیں اور ہر فلسطینی مسلمان نہیں (پی ایل او میں مسیحی میں شامل تھے ) اسی طرح ہر یہودی اسرائیلی نہیں، دنیا میں بے شمار یہودی صہیونی ایجنڈے کے مخالف ہیں۔ لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود آخری تجزیے میں اسرائیل پر امریکہ اور مغربی دنیا کا موقف سوائے بد معاشی کے اور کچھ نہیں، اینجلا مرکل جیسی عورت بھی اسرائیل کے مظالم کو نظر انداز کرکے اُس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی ہے جوشرم کا مقام ہے۔ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے اور حق دفاع کے نام پر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا بےدریغ قتلِ عام کرتاہے تاہم حماس بھی اسرائیلی شہریوں کے قتل سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔

حل کیا ہے؟ اسرائیل فلسطین کے مسئلے کا حل امریکی صحافی فرید ذکریا نے دیا ہے۔ فرید ذکریا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا جی ڈی پی مصر کے مقابلے میں چودہ گنا اور سعودی عرب سے دگنا ہے، فوجی قوت میں بھی اسرائیل کا کوئی مقابل نہیں۔ اِن حالات میں فلسطینیوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ دنیا کو اخلاقی دلیل سے قائل کریں کہ نوے لاکھ اسرائیلی پچاس لاکھ فلسطینیوں کو بغیر کوئی سیاسی حق دیے اُن پر حکومت کر رہے ہیں جو آج کی دنیا میں ناقابلِ قبول بات ہے۔ یہ واحد راستہ ہے جو فلسطینیوں کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کر سکتا ہے۔ باقی رہا عالم اسلام، اُس کی آنیاں جانیاں ہم نے دیکھ لی ہیں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔