بلاگ
Time 27 مئی ، 2021

جنرل رانی

گزرے رمضان کے آخری دنوں کی بات ہے۔ عطاء الحق قاسمی صاحب نے لاہور میں ’’معاصر‘‘ کے دفتر میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔ افطار کے دوران عزیزی سہیل احمد گوجرانوالہ کے مختلف لذیذ کھانوں کا ذکر کرکے وہاں موجود دوستوں کو دعوتِ گناہ دیتے رہے تو دوسری طرف قاسمی صاحب اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے حسن نثار صاحب کے ساتھ سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ میں ان دونوں کے بہت قریب بیٹھا ہوا تھا اس لئے ایک سرگوشی میرے کان میں پڑ گئی۔

یہ سرگوشی قاسمی صاحب کے سامنے میز پر رکھی ایک کتاب کے بارے میں تھی۔ اتفاق سے یہ کتاب مجھ تک پہنچ چکی تھی لیکن میں نے اس پر صرف ایک سرسری نظر دوڑائی تھی۔

حسن نثار صاحب اس کتاب کو کافی تفصیل سے پڑھ چکے تھے اور اب ہمیں وہ کچھ بتا رہے تھے جو کتاب میں نہیں لکھا گیا تھا کیونکہ وہ بھی کچھ واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ تو جناب بات ہو رہی تھی سابق ایم این اے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خودنوشت ’’عمرِرواں‘‘ کی۔ پراچہ صاحب نے اپنی جوانی اور ہمارے بچپن میں پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑا۔

اس الیکشن مہم میں جو نعرے لگائے گئے ان میں سے کچھ کا ذکر انہوں نے ’’عمرِرواں‘‘ میں کر دیا ہے کچھ کا ذکر حسن نثار کر رہے تھے۔ بہرحال لاہور سے واپس آکر میں نے آہستہ آہستہ یہ کتاب پڑھنی شروع کی تو اس میں بہت سے محترم دوستوں اور شناسا مرد وخواتین کا ذکر تھا۔ پراچہ صاحب پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں ایل ایل بی کے طالب علم تھے اور اپنے اساتذہ میں شیخ امتیاز علی اور سردار اقبال موکل کے ساتھ ساتھ چوہدری اعتزاز احسن اور عابد حسن منٹو صاحب کا ذکر کرنا نہیں بھولے۔

جاوید ہاشمی، حفیظ خان، عبدالشکور، افتخار فیروز اور اکرم شیخ سے لیکر انہوں نے لاکالج میں اپنی ہم عصر طاہرہ سید اور شاہین عتیق الرحمٰن کو بھی یاد رکھا۔ پراچہ صاحب زمانہ طالب علمی سے اب تک ایک درجن سے زائد مرتبہ جیل جا چکے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے کئی جیل میں کہانیاں بھی لکھی ہیں اور جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے ایک دھوکے کا ذکر بھی کیا ہے۔

جن اصحاب نے افغانستان کی جنگ میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے عملی کردار کی جھلکیاں دیکھنی ہیں وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں۔ پراچہ صاحب نے کوٹ لکھپت جیل لاہور کو اپنی پسندیدہ جیل قرار دیا ہے کیونکہ یہ بڑی کھلی ڈلی جیل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ الخدمت فائونڈیشن کے روحِ رواں عبدالشکور اور مسعود کھوکھر کے ہمراہ اس جیل میں قید تھے۔ جیل کے انچارج حمید اصغر اکثر انہیں اپنے دفتر میں گپ شپ کے لئے بلالیتے اور زنانہ جیل سے اقلیم اختر رانی المعروف جنرل رانی کو بھی بلا لیتے۔

پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ شاید انکی اور جنرل رانی کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ہوتی ہو لیکن انکی زیادہ دلچسپی سانحہ مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کے کردار پر ہوتی۔ یحییٰ خان سے جنرل رانی کی جان پہچان اس وقت ہوئی جب وہ میجر تھے۔

جنرل رانی کا خاوند غلام رضا ڈی ایس پی تھا۔ خاوند کی وجہ سے وہ تھانیدارنی اور جنرل یحییٰ خان سے تعلق کی وجہ سے جنرل رانی کہلاتی تھیں۔ ایک دفعہ جنرل رانی نے پراچہ صاحب کو بتایا کہ میرے پاس بھٹو اور یحییٰ کی ملاقاتوں کی ایک ایسی ریکارڈنگ موجود ہے جو ثابت کر سکتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار نہ مجیب ہے نہ یحییٰ بلکہ صرف بھٹو ہے۔

جنرل رانی ہمیشہ یحییٰ خان کو سادہ دل اور بھولا بھالا قرار دیتیں اور کہتیں کہ بھٹو نے مجھے جیل میں اس لئے ڈالا ہے کہ میرے پاس اس کی اور یحییٰ کی گفتگو کی کیسٹ ہے۔ پراچہ صاحب نے جنرل رانی کو تجویز دی کہ ہم رہائی کے بعد آپ کو پنجاب یونیورسٹی میں بلائیں گے۔ وہاں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کریں گے اور آپ وہاں وہ کیسٹ چلا دیں۔ سب معاملات طے ہو گئے جنرل رانی نے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو اپنی بیٹی کا نمبر بھی دیدیا لیکن رہائی کے بعد جنرل رانی کے مصطفیٰ کھر کے ذریعہ حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوگئے اور موصوفہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔

پتہ نہیں جنرل رانی کے پاس کوئی کیسٹ موجود تھی یا نہیں لیکن ’’عمرِ رواں‘‘ میں یہ واقعہ پڑھنے کے بعد مجھے ایس ایم ظفر صاحب کی کتاب ’’میرے مشہور مقدمے‘‘ یاد آگئی۔ اس کتاب میں ایس ایم ظفر صاحب نے بتایا ہے کہ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کا بھی مقدمہ لڑا اور جنرل رانی کا بھی مقدمہ لڑا ۔جنرل رانی سے وابستہ یادوں کا اختتام بڑا دلچسپ ہے۔

ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ جن دنوں جنرل رانی گجرات میں اپنے گھر پر نظربند تھیں تو انہوں نے اپنی نظربندی کو عدالت میں چیلنج کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی میں خواتین کی نشست پر الیکشن لڑنا چاہتی تھیں اور انکی بیٹی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا چاہتی تھیں۔

ایس ایم ظفر نے انہیں پریس کانفرنس سے روک دیا اور نظربندی کے خلاف حکومت کو نوٹس بھیج دیا۔ کچھ دنوں بعد جنرل رانی کو رہائی مل گئی۔ اس دوران ایس ایم ظفر صاحب کی ٹویوٹا کار لاہور ایئرپورٹ سے چوری ہو گئی۔ جنرل رانی لاہور آئیں تو انہوں نے ایس ایم ظفر صاحب کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس ملاقات کے کچھ دنوں بعد تھانہ سول لائنز لاہور نے ایس ایم ظفر کو اطلاع دی کہ آپ کی چوری شدہ کار برآمد ہو گئی ہے۔

انہوں نے اطلاع دینے والے پولیس افسر سے پوچھا کہ میری کار آپ کو کہاں سے ملی؟ انہوں نے جواب دیا یہ کار جنرل رانی کے بیٹے کے پاس تھی۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب کے اس باب کا نام ’’جنرل رانی‘‘ رکھا اور اس باب کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ جنرل رانی جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچی اور میری کار جنرل رانی کے بیٹے تک کیسے پہنچی؟

نہ ایس ایم ظفر کو یہ پتہ چلا کہ ان کی کار جنرل رانی کے بیٹے کے پاس کیسے پہنچی نہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو یہ پتہ چلا کہ جنرل رانی کی بھٹو حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی یا نہیں لیکن ایک بات کا پتہ انہیں ہونا چاہئے۔ جنرل رانی نے کوٹ لکھپت جیل میں اپنی بیٹی کا فون نمبر پراچہ صاحب کو دیا تھا۔

اس بیٹی کا ذکر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی بائیو گرافی ’’دی پیپلز مہاراجہ‘‘ میں بھی آیا ہے اور بھارتی میڈیا میں آج بھی یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا جنرل رانی کی بیٹی بھارتی پنجاب کی فرسٹ لیڈ ی ہے؟ جنرل رانی جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچی اور جنرل رانی کی بیٹی کیپٹن امریندر سنگھ تک کیسے پہنچی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی کتاب پڑھتے ہوئے ذہن میں آئے۔ کوئی ہے جو ان سوالات کا جواب دے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔