ڈہرکی کے قریب ٹرین کا خوفناک حادثہ، 62 افراد جاں بحق، 100 سے زائد زخمی

ڈہرکی کے قریب ٹرین کا خوفناک حادثہ ، ملت ایکسپریس کی کئی بوگیاں پٹڑی سے اترکرمخالف ٹریک پر آگئیں، دو منٹ بعد ہی سرسید ایکسپریس گرنے والی بوگیوں سے ٹکرا گئی، حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 55 ہوگئی،100سےزائد زخمی ہیں۔

بوگیوں میں پھنسے افراد کو نکالنے کا کام جاری  ہے، ریسکیو ورکرز کے ساتھ پاک فوج ، رینجرز کے دستے اور آرمی ہیلی کاپٹرزبھی امدادی کارروائیوں میں شریک  ہیں۔

زخمیوں کو سول اسپتال گھوٹکی،ڈہرکی ،رحیم یار خان اور پنوعاقل کے اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے ، ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا اور سرسید ایکسپریس راولپنڈی سے کراچی جارہی تھی ۔

ڈہرکی کے قریب ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتریں: ذرائع

حادثہ ڈہرکی اور ریتی لین اسٹیشن کے قریب پیش آیا جس میں ملت ایکسپریس کی 8 اور سرسید ایکسپریس کے انجن سمیت 3 بوگیں پٹڑی سےاترگئیں۔

حادثے کی اطلاع ملنے کے چند گھنٹے بعد علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، زخمیوں اور جاں بحق افراد کو صادق آباد، ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

ڈی ایس ریلوے طارق لطیف کے مطابق ملت ایکسپریس کی 8 بوگیاں 3 بجکر 38 منٹ پر ٹریک سے اتریں اور اس کے ٹھیک 2 منٹ بعد ہی سرسید ایکسیریس متاثرہ بوگیوں سے ٹکراگئی، حادثے میں اپ ٹریک کا 1100 فٹ اور ڈاؤن ٹریک کا 300 فٹ کا حصہ متاثر ہوا۔

حادثے میں 2 ریلوے پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوئے

کمشنر سکھر نے اب تک 55 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے جب کہ 100 کے قریب مسافر زخمی ہیں۔

ریلوے ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے 4 ملازمین بھی شامل ہیں جن میں 2 پولیس اہلکار ہیں۔

ذرائع کا بتانا ہےکہ دونوں اہلکار سر سید ایکسپریس پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور انہوں نے خانیوال اسٹیشن سے ڈیوٹی جوائن کی۔

امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا

حادثے کے بعد متعدد مسافروں کے ٹرین میں  پھنسے ہونے کی وجہ سے ہیوی مشینری منگوائی گئی۔

اندھیرے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں دشواری کا سامنا رہا

مقامی حکام کا بتانا ہےکہ رات گئے حادثے کی وجہ سے اندھیرے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور  دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی تاہم  مقامی لوگ امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

ایس ایس پی گھوٹکی کا کہنا ہے کہ جائے حادثہ پر میڈیکل ریلیف کیمپ لگا دیا گیا ہے اور زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے جب کہ متاثرہ مسافروں کو ہرقسم کی امداد فراہم کررہے ہیں۔

حکام کے مطابق متاثرہ ٹرینوں کے مسافر ٹریکٹر ٹرالیوں پرسوار ہوکر قومی شاہراہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

فوج کے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس اسٹاف بھی پہنچ گئے

آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرین حادثےکے مقام پر امداد اور بچاؤ کی کوششیں جاری ہیں، فوج اور رینجرز کے دستے حادثے کے مقام پر امدادی کام انجام دے رہے ہیں جب کہ پنوں عاقل سے ایمبولینسوں کے ساتھ فوجی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس بھی پہنچ گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق انجینئرنگ وسائل ضروری امداد اور بچاؤ کے لیے روانہ کر دیے گئے ہیں، فوج کی خصوصی انجینئر ٹیم اربن سرچ اینڈ ریسکیو راولپنڈی سے روانہ کردی گئی ہے جب کہ ہنگامی انخلا کے لیے ملتان سے 2 ہیلی کاپٹر روانہ کیے جارہے ہیں۔

دونوں ٹرینوں کے ڈرائیور اور عملہ محفوظ

ڈی ایس ریلوے کا کہنا ہےکہ حادثے میں دونوں ٹرینوں کے ڈرائیور اور عملےکے افراد محفوظ ہیں۔

جاں بحق افراد کے ورثا کیلئے 15 لاکھ روپے امداد کا اعلان

جیونیوز کے مطابق ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کے لیے 21 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جب کہ ریلوے نے حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثا کے لیے 15 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے، زخمیوں کو ان کے زخموں کی نوعیت کے حوالے سے کم سے کم 50 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔

21 گریڈ کے سینئر افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم

ترجمان ریلوے کے مطابق روہڑی سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ کی طرف روانہ کردی گئی ہے، ریلوے اور مقامی پولیس، مقامی انتظامیہ ریلیف کے لیے موقع پر موجود ہیں جب کہ مسافروں کی سہولت کے لیے کراچی، سکھر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ سینٹر قائم کردیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر خیرپور نے ہیلپ لائن نمبر جاری کردیا ہے اور مسافر اس نمبر (03325895316)  پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 

ترجمان نے بتایا کہ حادثے کے زیادہ تر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا ہے جب کہ ٹریک بحال ہوتے ہی ٹرینوں کو منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جائے گا تاہم سرسید ایکسپریس کے مسافروں کو صادق آباد ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کردیا گیا۔

ٹرین ڈرائیور کی جیونیوز سے گفتگو

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور اعجاز احمد نے کہا کہ رات 3 بج کر 40 منٹ کے وقت کراچی آنے والی ٹرین کے ڈبے گرے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر بریک لگانے کی بہت کوشش کی لیکن گاڑی نہیں رکی۔

انہوں نے کہا کہ حادثے کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوجائیگا کہ میں جاگا ہوا تھا۔

مزید خبریں :