بلاگ

شہباز شریف کی شیڈو کابینہ

اشارہ دینے والوں نے نہ صرف اشارہ دے دیا ہے بلکہ دو حرفی بات کہہ دی ہے کہ ملک کے حالات آپ کے سامنے ہیں، حکومت پانچ سال پورے کرے گی لیکن اگر تبدیلی کی خواہش ہے تو پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی لائیں۔ 

دوسری طرف سے جواب ملا، ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ حکومت کی جائے، ہمیں پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی نہیں لانی بلکہ باہر سڑکوں پر مظاہرے ریلیاں اور مناسب طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے لیکن ابھی الیکشن کرانے ہیں تو کرا لیں ہم تیار ہیں، جواب ملا! حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں، نہ زخمی کریں اور نہ بہانہ بننے دیں کیونکہ حکومت کو پانچ سال سے پہلے ختم کرنے کے نقصانات زیادہ اور فائدے کم ہیں۔

کہنے والوں نے کہا کہ وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنی شیڈو کابینہ بنائیں، سیاسی جلسے جلوسوں، ریلیوں میں اپنا وقت ضائع کریں گے تو فائدہ آپ کا نہیں اُسی کا ہوگا جو ہمیشہ ہر کسی کا اتحادی بن کر فائدہ اٹھاتا ہے۔ آنے والے الیکشن کے بارے اتحادیوں کو ابھی کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ لانے والوں (عوام) کو علم ہے کہ اتحادی ہمیشہ ناز نخرے اٹھانے والے ہوتے ہیں، کبھی وہ حکومت کو راضی کرتے ہیں تو کبھی حکومت ان کو راضی کر رہی ہوتی ہے۔

شیڈو کابینہ بنانے کے لئے دونوں پارٹیوں (ن)لیگ، پی پی پی (لیکن سندھ) کو بھی بول دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے پہلے دس وزارء کی شیڈو کابینہ کی فہرست بنا کر ڈیوٹیاں بھی لگادی ہیں کہ دو سال میں ایسی پلاننگ کریں کہ ہم حکومت لیتے ہی ملک میں انقلابی اقدامات کر سکیں۔

 کہیں ہمیں مخلوق(عوام) سے سننے کو نہ ملے کہ آپ نے دو سال میں کیا کِیا ہے؟ یہ حقیقت تو خود حکومت کی تسلیم کردہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت تو مل گئی لیکن ان کی سرے سے تیاری ہی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس کو حکومت ہم(عوام) دیں، ساتھ تیاری کا بھی کہیں۔ شنید ہے کہ طاقت وروں کے اند بھی اختلافات پائے جا رہے ہیں کیونکہ ایک حصہ چاہ رہا ہے کہ مریم نواز کو لیڈر بنانے کے لئے مزید وقت، طاقت اور جرأت یعنی بولنے دیا جائے، دوسرا طاقت کا مرکز شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اوپر نوازشات کی بارش چاہتا ہے۔

 پہلی طاقت چاہتی ہے کہ حمزہ کو پنجاب کا بزدار لگا دیا جائے لیکن ممکن ہے وہ(عوام) پہلے مرحلہ میں مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیں۔ دوسری طاقت کہتی ہے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا حق صرف حمزہ شہباز کا ہے۔ دونوں طاقتیں متفق ہیں کہ حکومت شہباز شریف کو نہ دی گئی تو پھر وہ بھی ہمیشہ کے لئے مفاہمت کے راستے سے جدا ہو جائیں گے۔ 

قوم ایک بات ذہن نشین کر لے، محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کی ہر حکمت عملی باہمی رضا مندی سے طے ہوتی ہے جب ڈرنے ڈرانے کا وقت آتا ہے تو نواز شریف بولنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ڈیل کرنی ہو، لین دین یعنی آفر آئے تو پھر محمد شہباز شریف بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ برا مانیں یا مجھے لفافہ صحافیوں کی فہرست میں ڈال دیں، 

یہ بات سچ ہے کہ میاں محمد شریف نے اپنے بچوں کی پرورش اس انداز سے کی ہے کہ ان کے سامنے کسی کو بولنے کی جرأت نہ تھی، اسی طرح محمد نواز شریف کے سامنے کسی کو بولنے کی جرات نہیں، محمد شہباز شریف کے سامنے مریم نواز کو بولنے کی جرأت نہیں اور مریم نواز کے سامنے حمزہ شہباز کو بولنے کی جرأت نہیں، نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے لیکن جب بڑا بولتا ہے تو چھوٹے سنتے ہیں۔ 

مزاحمتی بیانیے کے بارے میں  ہمارے سید سرفراز شاہ اور بابا عرفان الحق جیسے معتبر بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کا ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے لیکن میری چھٹی حس کہتی ہے کہ میاں شہباز شریف جب تک وزیراعظم بنیں گے تو بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔ میری برادری والے بھی کہیں آرام کی زندگی بسر کررہے ہوں گے۔

 یہ بات یاد رکھی جائے کہ پرویز مشرف کے زمانے میں بھی مشرف صاحب کو خوش کرنے والی رپورٹیں پیش کی جاتی تھی لیکن وکلاء تحریک میں جس(عوام) کا ہاتھ تھا اس کے بارے میں پرویز مشرف بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ بہرحال محمد نواز شریف کا کیس دوبارہ صرف اور صرف اس بنیاد پر کھولا جائے گا کہ کورٹ کے ذریعے نظر ثانی یا پھر کابینہ کی منظوری سے کوئی شق ڈال کر از سر ِنو محمد نواز شریف کو ریلیف ملے اور پھر شاید صدر پاکستان بن جائیں کیونکہ ضد تھی، ضد ہے اور ضد رہے گی۔ اصل میدان پھر ممکنہ صدر پاکستان بننے کے بعد لگے گا۔ صدر بلوچستان سے لینے کی زیادہ امید ہے۔

کچھ وزارتوں میں کام کرنے کے لئے سابق وفاقی سیکریٹری حضرات کو ذمہ داریاں عنقریب سونپی جائیں گی، سسٹم میں موجود بیوروکریسی کے لوگ روازنہ کی بنیاد پر رپورٹ اپنے سابق سینئر کو دے رہے ہیں۔ مجوزہ منسٹرز کو چھ ماہ کے اندر رپورٹ دینے کا کہا گیا ہے جبکہ ماہانہ رپورٹ جمع کرانے کے لئے بھی مجوزہ منسٹروں کو حکمنامہ جاری ہو چکا ہے۔ 

شیڈو کابینہ ابتدائی طور پر 10افراد پر مشتمل ہے، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اگلے وزیر داخلہ، وزیر ریلوئے یا پھر وزیر ہائوسنگ سعد رفیق، وزیر قانون یا وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، احسن اقبال سی پیک، عبدالقادر بلوچ وزیر دفاع، شاہد خاقان عباسی پیٹرولیم یا ہوا بازی، خواجہ آصف پانی و بجلی یا وزیر صحت، پرویز رشید انسانی حقوق یا وزیر اطلاعات لیکن مریم اورنگزیب کا نام بھی لندن سے آسکتا ہے۔ 

میڈیا کے لئے ریلیف کا بڑا پیکیج تیار ہو رہا ہے۔ اس بار داتا دربار کے عقیدت مند اسحٰق ڈار کے بعد مفتاح اسماعیل ہی بچے ہیں۔ ہاں! کبھی لکھوں گا کہ محمد شہباز شریف اپنی صحت کے لئے روحانی علاج اور وزیراعظم بننے کے لئے کن خانقاہوں اور درگاہوں پر حاضری دے رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔